گوندل پاڑہ جوٹ مل چودہ ماہ سے بند مزدور فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ، وزیر اعلیٰ کی ہدایت کا مذاق اڑایا گیا ۔
ہگلی28/جولائی (محمد شبیب عالم ) ہگلی چندن نگر میونسپل کارپوریشن کے تحت واقع گوندل پاڑہ جوٹ مل گزشتہ 27/مئی 2018کو مل انتظامیہ کے جانب سے سسپینشن آف ورک کا نوٹس لگاکر
بند کردیا گیا اور تب سے آج تک بند پڑی ہے ۔ آج چودہ ماہ کا وقت گزر گیا ۔ پانچ ہزار سے زائد مزدور بےروزگاری کی مار جھیل رہے ہیں ۔ مزدور اور انکے گھر والے فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ انکے بچوں کی تعلیم متاثر ہوگئی ہے ۔ کتنی بچیوں کی شادی کے رشتے بھی ٹوٹ گئے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ آج جہاں ایک گھر میں چار افراد ہیں اور چاروں کام کاج ملے لگے ہونے کے بعد بھی روزمرہ کی ضروریات پوری نہیں ہوتی ہے تو انکا کیا ہوگا جو گزشتہ چودہ ماہ سے بےروزگاری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ یوپی بہار کے رہنے والے زیادہ تر مزدور یہاں سے اپنے وطن لوٹ گئے ہیں ۔ جسکی وجہ سے بچوں کی پڑھائی بھی چھوٹ گئی ۔ جن مزدوروں کا یوپی بہار میں کچھ نہیں ہے وہ یہاں ادھر ادھر جگاڑی کرکے اپنا اور اپنے بال بچوں کی پرورش کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ کچھ مزدوروں کی زبانی یہ بھی سناگیاہےکہ کارخانہ بند ہونے کی وجہ سے کئی مزدور ادھر ادھر روزی روزگار کی تلاش میں دور دراز کے علاقے میں گئے ۔ اس درمیان کئی مزدور حادثے کے شکار ہو کر اس دنیا کو الوداع کہہ گئے ۔ مگر پھر بھی کسی کے کانوں تلے جوں نہیں رینگتی ۔ اس معاملے میں مقامی سابق ترنمول رہنما و موجودہ بی جے پی حامی نیلیس کمار پانڈے نے بتایا کہ میں شروعاتی زمانے سے ترنمول پارٹی کرتا تھا ۔ ابھی چند روز قبل میں ترنمول چھوڑ کر بی جے پی کو اپنایا ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ میرے والد اور میرے کئی رشتے دار بھی جوٹ مل مزدور رہ چکےہیں اور اس علاقے میں جوٹ مل مزدوروں کی اکثریت ہے ۔ مگر جب جب یہاں کے مزدوروں کے مسائل کو لیکر آواز اٹھانا چاہا مجھے دبا دیا گیا ۔ یہاں چودہ ماہ کا وقت گزر چکاہے مگر اب تک کسی نے بھی اس کارخانے کو کھولنے کے حق میں آواز تک نہیں اٹھایا اور نہ ہی کسی نے مزدوروں کے اس حال کا زائزہ لیا ۔ اسی بات سے پریشان ہوکر میں آج پارٹی چھوڑدیا ۔ ماں ماٹی مانس کے نام کا مالا جپنے والی سرکار آخر ان بےروزگار مزدوروں کے بارے میں کب سوچے گی ۔ انہوں نے اور کہا کہ ابھی ابھی لوک سبھا انتخاب کے تشہیری مہم میں ریاستی وزیر اعلیٰ یہاں خود آئی تھیں اور گوندل پاڑہ جوٹ مل بند کی خبر سننے کے بعد مل کو فوری طور پر کھولنے کو بولی اور انکے حکم کے مطابق جوٹ مل کھول دی گئ ۔ مگر جس دن یہاں ووٹنگ ختم ہوئی ٹھیک اسکے دوسرے دن پھر سے تالابندی کردی گئی ۔ اس بات کو لیکر مزدوروں کا کہنا ہے کہ صرف ووٹ لینے کے لئے ہی چند دنوں کے لئے اس کارخانے کو کھولا گیا تھا اور دوسرے دن بند کردیا گیا ۔ کچھ مزدوروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں ترنمول کانگریس کی شکست ہوئی ہے اس وجہ سے بھی اس کارخانے کو بند کرکے رکھا گیا ہے ۔ کارخانہ بند ہونے کی وجہ سے یہاں مزدور کالونیوں میں بجلی پانی کی سپلائی ٹھیک ڈھنگ سے نہیں ہورہی ہے ۔ صاف صفائی بھی بلکل نا کے برابر ہورہی ہے ۔ کارخانہ بند ہونے کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھتی جارہی ہے ۔ یہاں سے پہلی بار بی جے پی کی کامیاب ایم پی لاکٹ چٹرجی سے بھی مزدور اپنی گزارشات پیش کرچکے ہیں مگر معاملہ جوں کا توں ہی ہے ۔ اب مزدوروں کو ڈر ستانے لگاہے کہ کہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تو یہ جوٹ مل بند نہیں ہوگیا ؟ کیا یہ جوٹ مل کھلے گی ؟ اور اگر کھلے گی تو کب ۔ کچھ مزدوروں نے تو ریاستی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی پر امیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہیں اور انکی گزارش ہےکہ دیدی ہمیں بےوقت بےموت مرنے سے بچائیں ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے بال بچوں کی زندگی پروان چڑھنے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گی ۔
بند کردیا گیا اور تب سے آج تک بند پڑی ہے ۔ آج چودہ ماہ کا وقت گزر گیا ۔ پانچ ہزار سے زائد مزدور بےروزگاری کی مار جھیل رہے ہیں ۔ مزدور اور انکے گھر والے فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ انکے بچوں کی تعلیم متاثر ہوگئی ہے ۔ کتنی بچیوں کی شادی کے رشتے بھی ٹوٹ گئے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ آج جہاں ایک گھر میں چار افراد ہیں اور چاروں کام کاج ملے لگے ہونے کے بعد بھی روزمرہ کی ضروریات پوری نہیں ہوتی ہے تو انکا کیا ہوگا جو گزشتہ چودہ ماہ سے بےروزگاری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ یوپی بہار کے رہنے والے زیادہ تر مزدور یہاں سے اپنے وطن لوٹ گئے ہیں ۔ جسکی وجہ سے بچوں کی پڑھائی بھی چھوٹ گئی ۔ جن مزدوروں کا یوپی بہار میں کچھ نہیں ہے وہ یہاں ادھر ادھر جگاڑی کرکے اپنا اور اپنے بال بچوں کی پرورش کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ کچھ مزدوروں کی زبانی یہ بھی سناگیاہےکہ کارخانہ بند ہونے کی وجہ سے کئی مزدور ادھر ادھر روزی روزگار کی تلاش میں دور دراز کے علاقے میں گئے ۔ اس درمیان کئی مزدور حادثے کے شکار ہو کر اس دنیا کو الوداع کہہ گئے ۔ مگر پھر بھی کسی کے کانوں تلے جوں نہیں رینگتی ۔ اس معاملے میں مقامی سابق ترنمول رہنما و موجودہ بی جے پی حامی نیلیس کمار پانڈے نے بتایا کہ میں شروعاتی زمانے سے ترنمول پارٹی کرتا تھا ۔ ابھی چند روز قبل میں ترنمول چھوڑ کر بی جے پی کو اپنایا ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ میرے والد اور میرے کئی رشتے دار بھی جوٹ مل مزدور رہ چکےہیں اور اس علاقے میں جوٹ مل مزدوروں کی اکثریت ہے ۔ مگر جب جب یہاں کے مزدوروں کے مسائل کو لیکر آواز اٹھانا چاہا مجھے دبا دیا گیا ۔ یہاں چودہ ماہ کا وقت گزر چکاہے مگر اب تک کسی نے بھی اس کارخانے کو کھولنے کے حق میں آواز تک نہیں اٹھایا اور نہ ہی کسی نے مزدوروں کے اس حال کا زائزہ لیا ۔ اسی بات سے پریشان ہوکر میں آج پارٹی چھوڑدیا ۔ ماں ماٹی مانس کے نام کا مالا جپنے والی سرکار آخر ان بےروزگار مزدوروں کے بارے میں کب سوچے گی ۔ انہوں نے اور کہا کہ ابھی ابھی لوک سبھا انتخاب کے تشہیری مہم میں ریاستی وزیر اعلیٰ یہاں خود آئی تھیں اور گوندل پاڑہ جوٹ مل بند کی خبر سننے کے بعد مل کو فوری طور پر کھولنے کو بولی اور انکے حکم کے مطابق جوٹ مل کھول دی گئ ۔ مگر جس دن یہاں ووٹنگ ختم ہوئی ٹھیک اسکے دوسرے دن پھر سے تالابندی کردی گئی ۔ اس بات کو لیکر مزدوروں کا کہنا ہے کہ صرف ووٹ لینے کے لئے ہی چند دنوں کے لئے اس کارخانے کو کھولا گیا تھا اور دوسرے دن بند کردیا گیا ۔ کچھ مزدوروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں ترنمول کانگریس کی شکست ہوئی ہے اس وجہ سے بھی اس کارخانے کو بند کرکے رکھا گیا ہے ۔ کارخانہ بند ہونے کی وجہ سے یہاں مزدور کالونیوں میں بجلی پانی کی سپلائی ٹھیک ڈھنگ سے نہیں ہورہی ہے ۔ صاف صفائی بھی بلکل نا کے برابر ہورہی ہے ۔ کارخانہ بند ہونے کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھتی جارہی ہے ۔ یہاں سے پہلی بار بی جے پی کی کامیاب ایم پی لاکٹ چٹرجی سے بھی مزدور اپنی گزارشات پیش کرچکے ہیں مگر معاملہ جوں کا توں ہی ہے ۔ اب مزدوروں کو ڈر ستانے لگاہے کہ کہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تو یہ جوٹ مل بند نہیں ہوگیا ؟ کیا یہ جوٹ مل کھلے گی ؟ اور اگر کھلے گی تو کب ۔ کچھ مزدوروں نے تو ریاستی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی پر امیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہیں اور انکی گزارش ہےکہ دیدی ہمیں بےوقت بےموت مرنے سے بچائیں ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے بال بچوں کی زندگی پروان چڑھنے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گی ۔
Comments
Post a Comment