ہگلی کے پنڈوا میں پانڈو راجا کی حکمرانی اور حضرت سید صوفی سلطان گدھ کی نظر اس پر بھی ؟

 ہگلی(محمد شبیب عالم )     پنڈوا حضرت شاہ صوفی سلطان رحمۃ اللہ علیہ کا درگاہ ہوڑہ اسٹیشن سے بزریعہ ریل ساٹھ کیلومیٹر دوری پر آباد ہے ۔  پنڈوا کی اصل کشش یہاں کی مینار اور ایک دن میں بنی بائیس دروازہ مسجد جسے بڑی مسجد کے نام سے بھی منسوب کیا گیا ہے ۔ یہاں ایک بڑا سا 
میدان ہے جس میں ایک طرف بائیس دروازہ مسجد کے کھنڈرات اور دوسری طرف مینار ہے ۔  آخ کنہیں وجہوں سے اس میدان میں جانے پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ اس سے متعلق تفصیلات ہم آئندہ کریں گے ۔  مینار کی بات کریں تو اسکی اونچائی 125فٹ کے قریب ہے ۔  محققین کا کہنا ہے کہ انیسویں صدی میں ایک زلزلہ کے بعد مینار کی اونچائی میں کمی کردی گئی ۔  یہ مینار ہندوستانی آثارِ قدیمہ کے سروے میں محفوظ کیا گیا ہے ۔ زلزلے کے دوران مینار کے گرے ہوئے حصے کی تزئین و آرائش اے ایس آئی نے کی ۔ مینار کے اندر سے داخل ہوکر اوپر تک جانیں کے لئے ایک سیڑھی ہے ۔ مگر کافی برسوں سے اس میں تالے لگا دیئے گئے ہیں ۔     کچھ محققین کا کہنا ہے کہ پانڈو راجا کا یہاں جب حکومت تھا ۔  اس زمانے میں سید شاہ سیف الدین جنہیں آج حضرت شاہ صوفی سلطان کے نام سے جانا جاتا ہے ۔  یہ فیروز شاہ خلجی ( دہلی کے سلطان ) کے بھتیجے تھے وہ 13ویں صدی کے دوران اس جگہ کا دورہ کئے ۔  پنڈوا راجا کی حکمرانی کے دور میں اس علاقے میں گائے ذبیحہ پر پابندی تھی ۔  لیکن سید شاہ سیف الدین نے جب اپنے بیٹے کا ختنہ کروایا ۔ اس تقریب کی ادائیگی کے دن ایک گائے کو ذبح کردیا ۔  اس پر پانڈو راجا بےحد ناراض ہوگیا اور سید شاہ سیف الدین کے بیٹے کو قربانی دے دی ۔  اس کے بعد غمزدہ ہوکر سید شاہ سیف الدین واپس دہلی چلے گئے ۔  وہاں پہنچ کر جعفر خاں غازی کی کمانڈ ایک بڑی فوج کے ساتھ واپس آئے اور پانڈو راجا سے جنگ کا اعلان کردیئے ۔ آخر میں پانڈو راجا کو شکست ہوئی ۔ جس کے بعد 13ویں صدی کے آخر میں فتح کے نشان کے طور پر مینار تعمیر کروائے ۔ کچھ دنوں بعد وہ بھی انتقال کرگئے ۔  انکی قبر جی ٹی روڈ کے کنارے بنائی گئی ۔   یہاں ہرسال بنگلہ ماہ کے ماگھ مہینے کے آخر میں میلہ تلہ میں میلہ لگتا ہے جو ایک ماہ تک چلتا ہے ۔ اس دوران ملک بیرون ملک سے ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند آتے ہیں ۔  ویسے بارہوں مہینے 365 دن انکی درگاہ پر مسلمانوں کے علاوہ کافی تعداد میں غیر مسلم بھی یہاں آتے ہیں گل پوشی اور چادر پوشی کے علاوہ سجدہ ریز ہوکر مرادیں مانگتے دیکھائی دیتے ہیں ۔  بائیس دروازہ مسجد کی بات کریں تو ایک مخصوص قسم کے اینٹوں کا نمونہ ہے ۔ جس سے یہ آدھی ادھوری مسجد (کھنڈر ) کی شکل میں قائم ہے ۔  پنڈوا ہندوستانی ریلوے کی تاریخ کا ایک اہم باب بھی رکھتا ہے ۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ کولکاتا 1853 میں ملک کے پہلے ریلوے نظام سے وابستہ ہونے کا موقع گنوا دیا تھا ۔  19 ویں صدی میں روندر ناتھ ٹیگور کے دادا دوارکا ناتھ ٹیگور 1842 میں لندن میں اپنے ایک سفر کے دوران ہندوستان کے لئے ریلوے نظام کا تصور کیا تھا ۔  لارڈ ڈلہوزی نے 1849 میں ہوڑہ سے رانی گنج تک ایک تجرباتی مشرقی ہندوستانی ریلوے EIR لائن کی تعمیر کے لئے منظوری میں تیزی لائی اور 1853 کے آخر میں پنڈوا تک کل 64 کیلومیٹر ریلوے لائن تیار ہوگئی ۔  لیکن قسمت میں مداخلت اس وقت ہوئی جب پہلا ہندوستانی ریلوے کے لئے انجن لے جانے والا جہاز ایچ ایم ایس گوڈون کولکاتا پہنچنے سے پہلے ہی سینڈ ہینڈز SANDHEADS پر ڈوب گیا ۔ اسکے علاوہ بوگیوں کو لے جانے والی جہاز ہندوستان آنے کے بجائے آسٹریلیا کے راستے میں چلا گیا ۔ اس واقعات کی وجہ سے کولکاتا ہندوستان میں پہلی ٹرین کا اعزاز چوک گیا اور 1853 میں ممبئی (بوری بندر سے پونا ) پہلی ٹرین چلی ۔ اور مشرقی ہندوستان کو ہوڑہ سے ہگلی تک پہلی ٹرین کےلئے مزید ایک سال انتظار کرنا پڑا 15 اگست 1854 کو ہوڑہ سے ہگلی 39 کیلو میٹر ٹرین چلی ۔ اسکے بعد یکم ستمبر 1854 کو ہگلی سے آگے کے جانب پنڈوا تک ریل چلانے کا سلسلہ شروع ہوا ۔   آخر میں ایک بات واضح کرنا ضروری ہوگا کہ یہاں قریب سات سو برسوں سے عرس منائی جاتی ہے ۔ اسی مینار کے اردگرد اور باہری احاطوں میں جسے میلہ تلہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔  یہاں گزشتہ ماہ اچانک سے چند غیر سماجی عناصر پہونچ گئے تھے اور مینار کو اپنی ملکیت اور وشنو کا مندر ہونے کا دعویٰ کررہے تھے ۔  اس دن یہاں کا ماحول نہایت ہی ناخوشگوار ہوگیا تھا ۔ آخر میں پولیس کی مداخلت کے بعد انہیں وہاں سے ہٹایا گیا ۔ مگر ضلعی انتظامیہ اسکی فوری طور پر گھیرا بندی کردی اور حالات اور نہ بگڑجائے باہر تختی لگادیا گیا ہے کہ ابھی تزئین و آرائش کا کام چل رہا ہے ۔ ادھر اس بات کو لیکر مقامی کے ساتھ دور دراز کے رہنے والوں کو یہ غم ستانے لگاہے کہ کیا اس بار یہاں عرس ہوگی ؟ کیا میلہ لگے گا ۔ لوگوں کے درمیان اکثر یہ سوال اٹھ رہے ہیں ۔ لیکن درگاہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ میلہ ضرور لگے گا عرس بھی ہوگا ۔ لیکن ابھی بتانا مشکل ہے کہ گھیرے کے اندر میلہ لگنے کی اجازت ملےگی یا نہیں ؟ ابھی سے کچھ بھی کہنا جلد بازی ہوگا ۔ جنوری مہینے کی آخری ہفتے میں یہاں میلہ لگے گا ۔
   

Comments

Popular posts from this blog

اپنا حق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کریں جس سے عوام کا عوام سے سامنا ہونے کا اندیشہ ہو : مولانا حلیم اللہ قاسمیجمعیۃ علماء مہاراشٹر کا یکروزہ تربیتی اجلاس بحسن و خوبی اختتام پذیر

अग्रणी चिकित्सा शिक्षा और व्यापक देखभाल HOPECON'25 कोलकाता में तैयार

کلکتہ کے مٹیا برج گارڈن ریچ( میٹھا تلاب) میں 26 جنوری ریپلک ڈے کے موقع پر جےء ہند ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے  کینسر آورنیس ایجوکیشنل کانفرنس پروگرام منعقد کیا گیا