ایودھیا نسل آدم کی مشترکہ میراث : مہتاب عالم
ایودھیا یا اجودھیالفظ جودھیا یا یودھیا کا ضد ہے۔جو کہ حقیقی لفظ ودھ سے ماخوز ہے۔جس کا معنی قتل کرنا ہے جبکہ اودھ اس کا ضد قتل نہ کرنا ہے۔ودھیا بمعنی قتل و غارت گری کی سر زمین جبکہ ایودھیا جہاں خون خرابہ یا قتل و غارت گری نہ ہو۔بالفاظ دیگر امن و شانتی کی سر زمین یعنی شہر امن یا بلد الامین خورد جسے عموماً اہل ایودھیا خور دمکہ بھی کہتے ہیں۔جو آدم علیہ السلام کی مستقل رہائش گاہ اور سات سو سال تک منو مہاراج کے لقب سے حکومت کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ان کے بعد ان کے وارث اور بیٹے ثیث ؑ راجہ بنے بعد ازاں وہیں پیوند خاک ہوئے۔جن کی قبر آج بھی ساٹھ فٹ قبرستان میںآج بھی موجود ہے۔مگر انگریزوں کی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو پالیسی نے پہلی جنگ آزادی 1857کے بعد اس سرزمین انبیاءو شہر امن (اجودھیا یا ایودھیا)کو جو دھیا یا یودھیا بنا ڈالا۔جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور آج تک ہندو مسلم آپس میں دست و گریباں ہیں جہاں ہزاروں جانیں تلف ہو چکی ہیں۔مگر ہم ہیں کہ ہوش کے ناخن لینے کے بجائے اپنی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیںاور انسانیت کا قتل کرانے کو کار ثواب سمجھتے ہیں۔اہل ہنود کا دعویٰ ہے کہ بابری مسجد کادرمیان گنبد ہی شری رام کی جائے پیدائش ہے ۔جبکہ بابر کے گورنر میر باقی نے یہاں ایک مسجد بنوائی جسے بابری مسجد سے معنون کر دی۔گزشتہ ماہ ستر سالہ اس قضیہ پر عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ دیا اس پرحق پرستوں کی جانب سے چو طرفہ بجائے ستائش کے انصاف کا قتل قرار دیا۔جس میں بلا تفریق قوم وملت کے ماہر ین قانون بھی شامل ہیں۔ جس پراب مسلم پرسنل لاءکی جانب سے 6دسمبر یعنی بابری مسجد کی شہادت کے دن ریو پٹیشن یعنی نظر ثانی کی عرضی دائر کی جائے گی جو کہ ان کا قانونی حق ہے کیونکہ یہ کیس زمین کی ملکیت کا ہے ۔بہر حال یہ عدالتی معاملہ ہے جس کا سب کو انتظار رہے گا کہ آئندہ کب اس قضیے کا فیصلہ آتا ہے مگر ایک تشویش بھی پائی جارہی ہے کہ اگر فیصلہ فریق ثانی کے خلاف آتاتو کیا ہندستان میں امن و شانتی یونہی برقرار رہتا ۔کیا نظر ثانی کی قانونی حق کا استعمال نہیںہوتا۔بہر حال اصل موضوع کی جانب آتے ہیں۔کہ کیا ایودھیا حقیقت میں رام کی جائے پیدائش ہے؟۔اس پر جسٹس کاٹجو کا ریمارک بھی آیا کہ شری رام بھگوان نہیں بلکہ راجکمار مریادہ پرشوتم پرش یعنی قول و قرار کے پابند اور اصول پرست انسان تھے۔
انٹرنیٹ اور ویکی پیڈیاکے مطابق رام سوریہ بنسی تھے ۔جو منو (نوح ؑ)کی 57ویں پشت میں تھے جبکہ شری کرشن 95ویں پشت میں تھے۔جن کا شجرہ نسب ایکش بھاکو سے جا ملتا ہے۔ایکش بھاکو سنسکرت لفظ ہے جس کے معنی گنے کا رس نچوڑ نے والا ہے جنہوں نے ایک سال تک برت رکھا تھا اور گنے کا رس نچوڑ کر پی کر برت توڑی تھی یعنی روزہ کشائی کیا تھا۔وہی ایکش بھاکو نوح یعنی منو سنسکرت لفظ شراددھادیوایا بھئے بھاسواتامنو ہی سوریہ بنسی حکومت کے بانی تھے۔جن کی نسلیں پنجاب ،کشمیر ،ملتان،افغانستان وغیرہ میں آج بھی آباد ہیں۔جو لمبے قد کاٹھی اور گورے،مضبوط و تواناشیڈول جسم کے حامل ہیں۔جبکہ یو پی کے میرٹھ میں چندر بنسی نسل کی حکومت رہی جسے مہابھارت میں ہستینا پور راج کہا جاتا ہے۔ ایک پاکستانی سائٹ پر بہت پہلے لکھا ملا کہ نوح کے تیسرے بیٹے یافث(بائبل کے مطابق (Japeth )ہیں جنہوں نے موجودہ پاکستان کے شہر اجودھن کو آبادکیاتھاتو کیا یافث ہی ایکش بھاکو ہیںجن کے دس بیٹوں کا ذکر ملتا ہے،یہ تحقیق طلب ہے۔تاریخ فرشتہ ،تاریخ طبری وغیرہ پرانی تواریخ کے مطابق یافث کے بارہ بیٹوں میں ترک،منگول،چین،یون،(یونان)یاجوج ماجوج وغیرہ تھے۔جہاں جلال الحق بخاری کی آخری آرام گاہ ہے۔بعد ازاں بابا فرید الدین شکر گنج ملتانی کی نسبت سے اکبر بادشاہ نے اسے پاک پٹن کا نام دیااور وہیں پر ہڑپائی تہذیب کی متعدد نشانیاں بھی ملتی ہیں۔چند سال قبل جسے ایک مسلم عالم دین نے یہ دعویٰ کیا کہ رام کی جائے پیدائش ہڑپا میں ہوئی۔جس پرپہلی حکومت میں رہے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس وقت پارلیمنٹ میں محمد سلیم کی سخت تنقید پر کہا کہ آج میں راج نیتک جیون میں پہلی بار کافی آہت ہوا ہوں۔ہم تو وہ ہیں کہ ایک مولانا صاحب نے لکھا کہ رام کی جنم بھومی ہڑپا میں ہے تو ہم برا نہیں مانتے۔بہر حال اب ہڑپا کی تہذیب کے حوالے اور رام نیز ان کے آبا و اجداد کی تقریباً55 یا چھپن پشتوں کی وہیں تاریخی اور جغرافیائی نشانیاں ملتی ہیں۔جو درج ذیل ہیں۔(1)اگر یوپی کی اجودھیا کے راجہ دسرتھ تھے اور ویکی پیڈیا کے بموجب کوشل دیش جہاں کی راجکماری رام کی ماں کوشلیا تھیںاور یہ علاقہ بھی اجودھیا راج میں تھاتواب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا راجہ دسرتھ نے ویدک سنسکریتی کو نظر انداز کرکے آپس میں شادی کی۔جبکہ ویدک تہذیب کے مطابق یہ بالکل غلط ہے۔اسلئے یا تو راجہ دسرتھ کسی دوسرے اجودھیا کے راجہ تھے یا پھر کوشل دیش الگ تھا یا مورخین سے غلطی ہوئی یا ہم لوگ آج تک انگریزوں کی سازش کے شکار ہیں کیونکہ لارڈ میکالے نے جرمن سنسکرت اسکالر میکس مولر کے ذریعہ ہندستانی تاریخ کو مسخ کر دیا۔اس سے قبل ہندو مسلم آپس میں سیسہ پلائی دیوار تھے۔ جسے ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد نے ہندستانی تاریخ کواز سر نو لکھوانے کی وکالت کی تھی۔ مگریساریت پسندوں کی تاریخی اجارت داری کے سبب عمل نہ ہو سکا۔ہم آج تک اسی ڈگر پر کولھو کے بیل کی طرح چل رہے ہیں۔(2)ٹیکسیلا (تکشلا)یونیورسٹی جسے شری رام کے سوتیلے بھائی راجہ بھرت نے اپنی چودہ سالہ دورحکومت میں قائم کیا۔آج بھی اس کی باقیات پاکستان میں موجود ہے۔(3)افغانستان کے موجودہ شہر قندھار سابقہ نام گندھاریا گندھارابھی راجہ بھرت نے ہی بسایا تھاجہاں کی راجکماری گندھاری کوروﺅں کی ماں اور نابینا راجہ یدھشٹر کی بیوی تھی ۔(4)شری رام جب سیتا کو راون کا ودھ (قتل)کر کے حاصل کیا تو سیدھے پشپک بیمان سے کشمیر پہنچے ۔پھر وہاں سے اجودھن آئے۔جہاں سیتا کی پاکیزگی پر سوال کھڑے ہوئے تو سیتا رامائن کے پہلے مصنف بالمیکی جی کی کٹیا میں آ گئیں ۔جسے بھیروبھ استھان کہا جاتا ہے اور یہ آج بھی پاکستان میںمندر نما سفید رنگ لئے موجود ہے۔جسے نیٹ پر بھیروب استھان لکھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے۔ (5)شری رام کے بڑے بیٹے لو نے جو شہر آباد کیا اس زمانے میں وہ لو پور کہلایا جسے آج لاہور کہا جاتا ہے۔جسے سابق وزیر اعظم واجپئی کے دورہ ¿ پاکستان کے دوران رنگ و روغن سے سجایا گیا تھا۔(6) شری رام کے چھوٹے بیٹے کوش نے غالباًدریائے اچھر کی دوسری جانب جو شہر آباد کیا وہ کوش پور کہلایا جسے آج قصور کہا جاتا ہے جہاں کے سابق وزیر پاکستان خورشید احمد قصوری ہیں۔(7)بھرت کی ماں کیکئی جو کیکایا دیش کی شہزادی تھیں۔کیونکہ اس دور میں بیٹیوں کا نام عرف عام میں دیش کے نام پر بھی ہوا کرتا تھاجیسا کہ سیتا کا نام جنک کے نام پر جانکی بھی کہا جاتا ہے۔آج کیکایا دیش روس کے ماتحت علاقہ یوکرین ہے ۔جو پاکستان کے اجودھن سے تقریباً چار ہزار کیلو میٹر دور ہے۔بلکہ روس کے متعلق ایک بار پروین توگڑیا نے کہا تھا کہ روس ہماری رشی گوہ یعنی رشی منیوں کی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی۔(8)جب رام کے والد راجہ دسرتھ کا بیٹے کی جدائی کے غم سے انتقال ہو گیا تو اس وقت ان کے چاروں بیٹوں میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا جو کہ شرون کی ان کے تیر سے شیر سمجھ کر مارنے کے دوران موت ہو گئی تھی۔جو شرون کے پیاسے اور نابینا ماں باپ کےلئے پانی لانے گئے تھے۔اس وقت جب والدین کے پاس راجہ دسرتھ آئے اور پانی پلانے لگے تو انہوں نے پہچان لیا کہ یہ میرا شرون نہیں ہے ۔اس پر واقعہ سننے کے بعد انہوں نے شراپ (بد دعا)دی تھی۔لہٰذا ان کی لاش کو مختلف قسم کی مخصوص تیل کے ساتھ رکھا گیا تاکہ بھرت اور شتروگھن بھرت کے نانیہال کیکایا دیش گئے تھے۔اسلئے برق رفتاری سواری کا انتظام کر کے شاہی ہرکارہ دوڑایا گیا۔جبکہ رام اور لکشمن بن باس پر تھے۔اس کے علاوہ مختلف دلائل بھی شری رام کی جائے پیدائش اور ان کے آبا و اجداد کی مستقل نشانیاں موجودہ پاکستان میں ملتی ہےں۔جبکہ یوپی کے اجودھیا میں سیکڑوں پنڈت یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شری رام کی جائے پیدائش ہمارے مندر میں ہے۔جبکہ اس قضیہ کو برٹش حکومت نے ایک بودھ بھیکشو کی مدد سے اسے متنازعہ مقام بنا دیا۔
یوپی کی ایودھیا در اصل جہاں آدم کی سات سو سالہ بادشاہت کی معلومات فراہم کرتا ہے تو وہیں ان کے بیٹے شیث کا مقبرہ بھی اس کی بین دلیل ہے۔اسلامی اور یہودی نیز عیسائیت کے مطابق بھی یہ شہر نسل در نسل دسویں پشت میں نوح تک ان کی امانت پہنچتی ہے ۔جہاں آدم کی رسوئی گھر یعنی روٹی بنانے کی تندور گھر رہا۔جہاں سے طوفان نوح کا آغاز ہواجیسا کہ چند سال قبل اپنے کالم میں پرویز انجینئر نے ذکر کیا تھا۔مگر اہل ہنود کی نسل کیشپ سے چل کر ساتویں پشت میں منو یعنی کشتی والے جسے نوح کہا جاتا ہے اور جن کے نام سے محلہ نوح کا ذکر ملتا ہے۔حقیقت میں یہ انسانی تاریخ کی اولین سرزمین ہے جہاں آدم تا نوح آباد رہے اور جن پر وید کا نزول ہواجسے عربی میں زبر الاولین جبکہ سنسکرت میں آدی گرنتھ کہا جاتا ہے۔ان ہی کی نسبت سے اسے اہل اجودھیا اسے خورد مکہ بھی کہتے ہیں۔کاش اسے بنی نوع آدم کےلئے حقیقت میں کھول دیا جاتا جہاں سب کےلئے تیرتھ ا ستھان ،زیارت گاہ مرجع خلائق ہوتا کیونکہ نسل آم یہیں سے پروان چڑھی اور پوری دنیا میں امن و شانتی کا اپدیش دیکر ایک لڑی میں پرویا تھا جسے آج اہل سیاست بکھیرنے میں مصروف عمل ہےں کیونکہ ایوھیا کی سر زمین اولین باپ (ابو البشر)کی حق ملکیت ہے جہاں تمام اولادوںکا یکساں حق ہے ۔جہاں نہ کوئی ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی ،یہودی ،جین،بدھ ہے بلکہ صرف اور صرف نسل آدم کی میراث ہے اور انسانیت کی خاطر مشترکہ وراثت کا احترام کرتے ہوئے اسے زیارتگاہ عام بنادیا جائے تاکہ اس قضیہ سے ہمیشہ کےلئے نجات مل سکے۔ مہتاب عالم(ترجمان بنگال اردو جرنسلٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن،موبائل:9331943470)
Comments
Post a Comment