عالمی یومِ مادری زبان و آزادی کی زبان اردو کےلئے برصغیر میں نفرت کیوں ۔

 کولکاتا:20،فروری(مہتاب عالم،اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے دوران 17نومبر1999میں عام اسمبلی میں زبان کے تئیں یہ فیصلہ لیا گیا کہ عالمی مادری زبان کا ایک دن ہونا چاہئے۔بحث و مباحثے کے بعد 21فروری کا دن منتخب ہوا۔جسے یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں جاری کیا گیا۔اس کے بعد 21فروری 2000سے بین الاقوامی یوم مادری زبان منانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔امسال 20واں سال ہے۔جہاں دنیا کے ہر اہل زبان اپنی اپنی زبان کے تئیں مناتے آرہے ہیں۔
اکسپریس میڈیا گروپ کے انٹرنیٹ سائٹ پر(زبیر رحمٰن کا مضمون”21 فروری عالمی یوم مادری زبان“دور جدید کے معروف امریکی دانشور اور ماہر لسانیات پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ آج سے صرف 50 سال قبل دنیا میں 8613 زبانیں تھیں جو اب گھٹ کر 6376 تک رہ گئی ہیں، کچھ زبانیں تو حال ہی میں معدوم ہو گئی ہیں۔ جیسا کہ ہندستان کے صوبہ گوا کی کوکنی زبان اب سے چند سال قبل معدوم ہو چکی ہے۔ شاذ و نادر کوئی ضعیف العمر آدمی کوکنی بول لیتا ہو۔ اب گوا کی مادری زبان انگریزی بن چکی ہے، دنیا کی بڑی زبانوں میں دوسری زبانیں مدغم ہوتی جا رہی ہیں اور وہ 7 زبانیں اسپینش، انگلش، روسی، سوہالی، ہندی/ اردو، انڈونیشی اور میڈیٹیرین ہیں۔ سارا جنوبی امریکا اور شمالی امریکا میکسیکو اسپینش بولتا ہے۔ برطانیہ، یو ایس اے، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کیریبین ممالک، کچھ افریقی ممالک، ایک حد تک جنوبی افریقہ اور جنوبی ہند میں انگریزی بولی جاتی ہے۔ سارے افریقہ میں اپنی اپنی مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی افریقی سوہالی زبان بول لیتے ہیں۔
دوسری جانب اردو محفل کے انٹرنیٹ سائٹ پر دیئے گئے سید محمد عابدکی تحریر کے مطابق: آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے بموجب دنیا بھر میں تقریبا 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہوچکی ہیں۔ زمانے کی جدت اور سرکاری زبانوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مادری زبانوں کی اہمیت ماند پڑ رہی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوانیوگنی میں بولی جاتی ہیں جہاں کل زبانوں کا 12 فیصد یعنی 860 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ 742 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیاءدوسرے، 516 کے ساتھ نائیجیریا تیسرے، 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکا پانچویں نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا میں 275 اور چین میں 241 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے 87 کروڑ 30 لاکھ افراد بولتے ہیں جبکہ 37 کروڑ ہندی، 35 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔ پنجابی 11 اور اردو بولی جانے والی زبانوں میں 19 ویں نمبر پر ہے۔عالمی سطح پر زبانوں کی تعداد اور ان کو بولنے والوں کا تناسب انتہائی غیر متوازن ہے۔ صرف 75 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور صرف 8 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے جو کل عالمی آبادی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر صرف 100 زبانوں کا استعمال تحریری شکل میں کیا جاتا ہے۔ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔بنگلہ زبان کی عمر ڈھائی ہزار سال سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی گرامر آج بھی سنسکرت ہے۔ برصغیر میں اس وقت تقریباً 30 کروڑ انسان بنگلہ زبان میں لکھتے، پڑھتے اور بولتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ، مغربی بنگال کی 9کروڑ اور باقی ماندہ ہندستان میں تقریباً ایک کروڑ سے زیادہ بنگالی بستے ہیں۔یہ زبان بہت گہرائی رکھتی ہے، بنگلہ زبان کے معروف شاعر رابندر ناتھ ٹیگور جنھیں ایشیاءکا پہلا نوبل انعام ملا تھا اور انھوں نے یہ انعام اس وقت واپس کر دیا جب جنرل ڈائر کے حکم پر جلیاں والا باغ پر برٹش فورسز نے گولیاں چلا دیں جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کو دنیا کی اتنی یونیورسٹیوں میں مدعو کیا گیا کہ شیکسپیئر کو بھی اتنی یونیورسٹیوں میں نہیں بلایا گیا۔ زبانوں کو ملکوں یا سرحدوں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ازبکستان کے قومی شاعر مرزا اسد اللہ خاںغالب ہیں، ایران میں علامہ اقبال کو تقریباً قومی شاعر کا درجہ دیا جاتا ہے، ٹیگور کو بنگلہ دیش کا قومی شاعر قرار دیا گیا ہے، بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بھی رابندر نارتھ ٹیگور کا لکھا ہوا ہے۔ ٹیگور نے زبانوں کی سائنس پر ”بھاشا تاتیتک بگان“ نامی معروف کتاب لکھی، انگریزی طرز کا Sonnet بنگلہ میں بھی لکھا گیا۔ ”کنگ لیئر“ نامی ڈراما شیکسپیئر نے لکھا جس میں ایک ہی کردار تھا، اسی طرح ٹیگور نے ”روکتو کوروبی“ نامی ایک ڈرامہ لکھا، جس میں پانچ بار انٹرویل ہوتا ہے۔ اس ڈرامے میں بھی شروع سے آخر تک ایک ہی لڑکی کا کردار ہوتا ہے۔1948ءمیں قائداعظم نے جب ڈھاکہ رمنا پارک میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک اللہ، ایک رسول، ایک ملک اور ایک زبان اور وہ ہے اردو۔ اس پر ایک طالب علم رہنما نے کھڑے ہوکر اعتراض کیا کہ زبان صرف اردو نہیں بنگلہ بھی ہے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں نے بنگلہ کو سرکاری اور قومی زبان قرار نہیں دیا۔ جس کے خلاف تحریک شروع ہو گئی۔ یہ تحریک اتنی منظم، فعال اور متحرک تھی کہ حکمرانوں نے بار ہا اسے روکنے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔آخر کاریہ تحریک 21 فروری 1952ءکو اپنے عروج پر پہنچ گئی۔جس میں ڈھاکہ یونیورسٹی ، جگن ناتھ یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کرتے ہوئے جب ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سامنے سے جلوس لیکر گزرے تو مشرقی پاکستان کے سابق گورنر کے حکم پر ان طلبہ پر گولی چلا دی گئی جو بنگلہ زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کےلئے مطالبہ کر رہے تھے۔ ان گولیوں کی زد میں آ کر طالب علم رہنما سمیت دیگر 5 طلبہ شہید ہو گئے۔ اس کے بعد یہ تحریک مشرقی پاکستان (جو اب بنگلہ دیش ہے) میں ہر شہر اور گلی کوچوں میں پھیل گئی۔ بعد ازاں 1954ءمیں انھی پاکستانی حکمرانوں نے بنگلہ کو پاکستان کی دوسری قومی (سرکاری) زبان کے طور پر تسلیم کر لیا۔
جبکہ مضامین ڈاٹ کام پر دیئے گئے ڈاکڑ سیّد احمد قادری نے تحریر کیا ہے کہ مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) میں 29 فروری 1956 کو بنگلہ زبان کو وہاں کا قومی زبان تسلیم کرلیا گیا اب کرنسی نوٹ سمیت ہر سطح پر بنگلہ لکھی جانے لگی۔مزید لکھا ہے کہ مادری زبان کی یہ چنگاری ایسی پھیلی کہ یہ آگ اور خون میں بدل گئی اور آخر کار1971 ءمیں صرف زبان کی بنیاد پر ملک الگ ہو گیا۔ مجاہدین آزادی کے خواب شرمندہ ¿ تعبیر ہوئے اور اپنے وجود کو بنگلہ دیش کے طور پر منوا لینے کے ساتھ ساتھ مادری زبان کےلئے جان کی قربانی دینے والوں کو فراموش نہیں کیا گیا، بلکہ ان کی یاد میں ڈھاکہ میں ایک شاندار یاد گار ’ شہید مینار‘ قائم کرکے ہر سال ان کی قر بانیوں کو یا د رکھنے کےلئے بڑے پیمانے پر ’ یوم شہادت ‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن خاص طور پر پورے ملک میں تعطیل رہتی ہے۔ اپنی مادری زبان کے تئیں بنگلہ زبان کے چاہنے والوں کا یہ خلوص،ایثار و قربانی، جذبہ، محبت اور یہ والہانہ لگاو ¿ صرف اپنے ملک تک محدود نہیں رہا، بلکہ لندن اور سڈنی وغیرہ میں بھی ’ شہید مینار ‘ تعمیر کرائی اور ہر سال 21 فروری کو ان یادگار میناروں کے ذریعہ اپنی نئی نسل کو اپنی مادری زبان کے تئیں ایثار و محبت کی یقین دہانی کراتے ہیں۔اقوام متحدہ نے اسی دن کو یعنی21 فروری کو ”عالمی یوم مادری زبان“ قرار دے دیا۔ اس کے بعد سے دنیا کے ہر ملک میں جو کہ یواین او(اقوام متحدہ) کا رکن ہے،اس پر یہ لازم ہو گیا کہ وہ سرکاری طور پر 21 فروری کو ہر سال ”عالمی یوم مادری زبان“ منائےں۔ آج بھی بنگلہ دیش، ہندستان اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں عالمی یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔آج جبکہ پوری دنیا میں عالمی یوم مادری زبان منایا جا رہا ہے تو وہیں بنگال میں اسی دن کے مناسبت سے بیشتر بنگالیوں میں اردو کے تئیں دشمنی کی ایک چنگاری جل رہی ہے،جن کا تعلق خصوصاًبنگلہ دیش سے رہا ہے جو کہ فطری امر ہے۔انہوں نے اردو دشمنی میں اہل بنگالہ کے اہل اردو کے ساتھ اتنی منصوبہ بند دشمنی نکالی کہ لفٹ دور سے اردواور اردو اسکولوں میں اردوٹیچروں کی بحالی پر قد غن اور مختلف ہتھکنڈوں نیز منصوبہ بند طریقے سے ختم کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہیں۔ آخر اس میں مغربی بنگال کے اہل اردو کا کیا قصور ہے۔ کیا اردو صرف پاکستان کی زبان ہے۔بلکہ پورے برصغیر کی مشترکہ اور آزادی کی زبان ہے۔جس کےلئے اہل اردو،بنگلہ اور ہندی والوں کو مل کر اس خلیج کو پاٹنے کی اشد ضرورت ہے۔مگر اس کام کےلئے اہل اردو کی بے بسی و بے حسی پر حیرت ہوتی ہے۔جس کا نمونہ راقم نے بذات خود شمالی بنگال کے شمالی دیناج پورضلع کے چکلیہ،کرن دیگھی، گوال پوکھر، اسلام پور ،چوپڑاکے بائی لینگویل اور ٹرائی لینگویل اسکولوںکے دورے کے دوران محسوس کیا اور اردو والوں کی بے حسی اور بے بسی کوخود دیکھا ہے۔صرف دو مثالیں پیش خدمت ہے۔کیچک ٹولا ہائی اسکول جس میں صرف آرٹس ہے اور ذولسانی اردو بنگلہ میڈیم ہے جہاں ستر یا پچہتر بچے اردو سے زائد ہیں جبکہ اردو بچوں کی تعداد بھی پانچ سو کے قریب ہے۔ایسے میں صرف ایک اردو ٹیچر درجہ پنجم تا دوازدہم کیونکر درس دے سکتا ہے۔یہاں صبح پہنچنے کے بعد اسکول کے صحن میں ترانہ ہو رہا تھا۔میں بھی ادب سے کھڑا رہا۔ہیڈ ماسٹر بچوں کو ڈریس کے متعلق تاکید کررہے تھے۔اس پر اردو کے دو چار بچوں نے کہا کہ سر ہم لوگ وقت پر کیسے آسکتے ہیں ۔میتھ کے سر بنگلہ میں پڑھاتے ہیں جو ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ ہم لوگ ٹیوشن اور کوچنگ میں چلے جاتے ہیں۔ہیڈ ماسٹر نے میتھ کے سر استفسار کیا تو انہوں نے کہا میں تو اردو نہیں جانتا بچے صحیح کہہ رہے ہیں۔اسی بات پر ایک دوسرے ٹیچر نے فوراً لقمہ دیا کہ تب تم لوگوں کو پاکستان جانا ہو گا۔دوسرا اسلام پور ہائی اسکول کا ہے جہاں تقریباً تین چار ہفتے تک کولکاتا سے سفری صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھکاری تک کھڑا رہنا پڑتا تھا۔میری کافی باز پرس اور تمام اسناد دیکھے گئے۔بعد میں آنے کو کہا گیا۔مسلسل میرے دوڑنے کی وجہ سے ہیڈ ماسٹر راضی ہوئے اور جب ڈاٹا دینے لگے تو ایک دوسرا ٹیچر جو شکل و شباہت سے دیو قامت شیطان اورغنڈہ صفت نیز نیچ فطرت کا پیداوار تھا۔اس نے بھی مختلف قسم کے سوالات ایسے مجھ سے کئے اگر میں تحمل اور حکمت نہ اختیار کرتا تو مار پیٹ کی نوبت آ پہنچتی۔بعد ازاں اس نے منع کر دیا کہ ہم لوگ ڈاٹا دینے کے پابند نہیں ہیں۔جہاں صرف اردو کے دو ٹیچر ایک ایچ ایس میتھ اور دوسرے اردو کے ہیں بقیہ تین عہدہ اردو میڈیم کے خالی ہیں۔وہیں ہندی شعبہ کےلئے بھی دو ہی ٹیچر موجود ہیںاور دو خالی پوسٹ ہے۔یعنی اردو کےلئے پانچ اور ہندی کےلئے چار کل 9پوسٹ سینکشن ہیں۔اس پر بھی اسی اسکول کے اردو ٹیچر اور موجودہ ریاستی وزیر غلام ربانی کو وزارت ملنے کے سبب پوسٹ خالی ہے۔جسے بنگلہ میڈیم کےلئے مختص کر دیا گیا جبکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ بنگلہ میڈیم کےلئے 49پوسٹ سینکشن ہیں۔جب دورہ کیا تھا اس وقت 38موجو دتھے اور11خالی تھے۔
بہر حال کاش! اس ضمن میں بھی اردو کی نام نہاد تنظیمیں کوشش کرتیں تو بہت حد تک اردو دشمنی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں کلکتہ کی اردو اسٹرگل کمیٹی مبارک باد کی مستحق ہے جس نے گزشتہ سال جہاں ،اردو ، بنگلہ اور ہندی والے مل کر ایک دیا جلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہیں انجمن ترقی اردو ہند کی جانب سے بھی مختلف قسم کے پروگرام منعقد کر کے علاقائی شاخوں کے ذریعہ اسکول اور مدرسہ سطح پراپنی کوششیں جاری رکھی ہیں تاکہ نئی نسلوں میں یہ جوت جگائی جا سکے کہ وہ اردو کے کامیاب سپاہی بنیں۔ اہل اردو سے اپیل ہے کہ وہ ان کا ہاتھ مضبوط کریں اور انکی آواز پر لبیک کہیں تو یقینا نفرت کی خلیج پاٹی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اہل بنگالہ دور اندیش ہوتے ہیں۔کیونکہ اسی بنگال سے اردو کا پہلا ہفت روزہ اخبار ہری ہر دت نے نکالا جس کے پہلے ایڈیٹر سدا سکھ لعل تھے۔ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ یہی سر زمین اردو کے معروف افسانہ نگار اور اردو صحافیوں کےلئے پہلی تنظیم ’انجمن صحافیان اردو‘ کے بانی شانتی رنجن بھٹاچارکی بھی ہے۔یہ حکومت پاکستان کی مذموم کارستانی کی ہم مذمت کرتے ہیں ۔ اردو ،بنگلہ اور ہندی کیلئے مشترکہ طور پرکوشش کرنے     والوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔  ترجمان بنگال اردو جرنلسٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن،9331943470) ۔

Comments

Popular posts from this blog

اپنا حق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کریں جس سے عوام کا عوام سے سامنا ہونے کا اندیشہ ہو : مولانا حلیم اللہ قاسمیجمعیۃ علماء مہاراشٹر کا یکروزہ تربیتی اجلاس بحسن و خوبی اختتام پذیر

अग्रणी चिकित्सा शिक्षा और व्यापक देखभाल HOPECON'25 कोलकाता में तैयार

کلکتہ کے مٹیا برج گارڈن ریچ( میٹھا تلاب) میں 26 جنوری ریپلک ڈے کے موقع پر جےء ہند ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے  کینسر آورنیس ایجوکیشنل کانفرنس پروگرام منعقد کیا گیا