نربھیا ریپ اور قتل کیس کے چار مجرموں کو پھانسی دے دی گئی

  دہلی20/مارچ  - دلی میں 2012 میں ایک طالبہ کے اجتماعی ریپ اور قتل کے چار مجرموں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔

اکشے ٹھاکر، ونے شرما، پون گپتا، اور مکیش سنگھ کو 2013 میں دلی کی ایک عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ حال ہی میں ان میں سے دو کی جانب سپریم کورٹ میں سزائے موت پر نظر ثانی کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد اس معاملے کے چاروں مجرموں کو گذشتہ روز پھانسی دی گئی۔

چاروں مجرمان کو تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی ہے۔ انڈیا میں 2015 کے بعد یہ کسی بھی مجرم کو پھانسی دینے کا پہلا واقعہ ہے ۔  نربھیا کے بہیمانہ اجتماعی ریپ اور قتل کا معاملہ دسمبر 2012 میں جنوبی دلی میں رونما ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد پورے ملک میں ریپ اور خواتین پر مظالم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہوئے تھے۔ ان مظاہروں کے بعد کم عمر بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور سنگین نوعیت کے ریپ کے معاملوں میں قید کی سزا بڑھا کر عمر قید اور سزائے موت کردی گئی۔

ان میں سے ایک مجرم پون گپتا نے عدالت عظمیٰ میں ایک کیوریٹیو پٹیشن داخل کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ جرم کے وقت نابالغ تھا۔ ایک دوسرے مجرم مکیش سنگھ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس میں اس نے اپنی پھانسی کی سزا یہ کہہ کر رکوانے کی فریاد کی تھی کہ وہ اجتماعی ریپ کے وقت دلی میں موجود نہیں تھا۔ عدالت عظمیٰ نے ان دونوں درخواستوں کو مسترد کر دیا  ۔  اس سے قبل مجرموں کی طرف سے قانونی داؤ پیچ استعمال کیے جانے کے سبب ان کی پھانسی کی تاریخیں طے ہونے کے بعد اس پر عمل درآمد پر تین بار روکا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے بعد مقتولہ نربھیا کی ماں نے کہا تھا کہ اب ان کی بیٹی کو بالآخر انصاف مل سکے گا۔

'عدالت نے انھیں اتنے موقع دیے کہ وہ پھانسی رکوانے کے لیے پھانسی سے پہلے کوئی نیا قانونی پہلو کھڑا کر کے اس میں تاخیر کروانے میں کامیاب ہو جاتے۔ اب عدالت کو بھی ان کے حربے کا پتہ ہے۔ میری بیٹی کو کل انصاف ملے گا۔'

پیر کو موت کے سزا یافتہ تین مجرموں نے اپنے وکیل اے پی سنگھ کے ذریعے پھانسی روکنے کے لیے بین الاقوامی عدالت میں بھی ایک اپیل داخل کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پھانسی کی یہ سزا غیر قانونی ہے۔ انہوں نے یہ دلیل دی تھی کہ جیل حکام سزا یافتہ مجرموں کو پھانسی پر لٹکانے کے لیے تیزی سے تیاریاں کر رہے ہیں جب کہ ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے اب بھی قانونی راستے بچے ہوئے ہیں ۔ بین الاقوامی عدالت میں اس اپیل میں مجرموں کے وکیل نے یہ بھی کہا تھا کہ دلی کی آب و ہوا میں زہریلی کثافت کے سبب زندگی ویسے بھی کم ہو رہی ہے اس لیے موت کی سزا دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

جمعرات کو ایک ذیلی عدالت کے کمپلکس پٹیالہ ہاؤس کے باہر اس وقت سنسنی پھیل گئی جب موت کی سزا پانے والے ایک مجرم کی بیوی آہ و زاری کرتے ہوئے زمین پر لیٹ گئیں۔ وہ عدالت سے فریاد کر رہی تھیں کہ ان کے شوہر کو پھانسی دینے سے پہلے انھیں اپنے شوہر سے طلاق دلائی جائے کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ سماج انھیں ایک ریپسٹ کی بیوہ کے طور پر جانے۔

لیکن ان کی اس فریاد کو مجرموں کی پھانسی ایک بار پھر روکنے کے ایک حربے کے طور پر لیا گیا اور ان کی شنوائی نہ ہو سکی ۔

Comments

Popular posts from this blog

اپنا حق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کریں جس سے عوام کا عوام سے سامنا ہونے کا اندیشہ ہو : مولانا حلیم اللہ قاسمیجمعیۃ علماء مہاراشٹر کا یکروزہ تربیتی اجلاس بحسن و خوبی اختتام پذیر

अग्रणी चिकित्सा शिक्षा और व्यापक देखभाल HOPECON'25 कोलकाता में तैयार

کلکتہ کے مٹیا برج گارڈن ریچ( میٹھا تلاب) میں 26 جنوری ریپلک ڈے کے موقع پر جےء ہند ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے  کینسر آورنیس ایجوکیشنل کانفرنس پروگرام منعقد کیا گیا