کورونا مرض سے لوگوں کی موت ہو یا نہ ہو مگر لوگ بھوک سے ضرور مرجائیں گے : عوام
ہگلی27/مارچ ( محمد شبیب عالم ) ملک میں کورونا وائرس کو لیکر حکومت کی جانب سے جو فیصلے لئے گئے ہیں اور اس پر عمل کرنے کے لئے لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں کے زبان سے یہی سننے کو مل رہا ہے کہ ہم کورونا سے مریں یا نہ مریں مگر بھوک سے ہم ضرور مرجائیں گے ۔ ابھی کچھ ہی دن ہی ہوئے ہیں لاک ڈاؤن کے مگر اس دوران پولیس کا عوام کے ساتھ برتاؤ و رویہ لوگوں کو تکلیف دینے لگی ہے ۔ جبکہ ریاستی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی ہدایت کر رہی ہیں کہ مودی دکان ( کرانے کی دکان ) دودھ سبزی مچھلی گوشت کی دکانیں کھلی رکھنی ہوگی ۔ زیادہ سے زیادہ دکانیں کھلی رہیں گی تو لوگوں کی بھیڑ بھی کم رہے گی ۔ ساتھ ہی انہوں نے پولیس کو یہ بھی ہدایت کی ہیں کہ دیکھو لوگوں کی بھیڑ نہ لگے ۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنا کچھ کہنے کے باوجود بھی زیادہ تر دکانوں میں لاک ڈاؤن کا اثر ہے ۔ بازار میں موڑھی سے لیکر پاوروٹی دودھ مٹھائی دہی اور ایسے کئی ضرورت کی چیزیں ملنی بند ہوگئی ہیں ۔ کچھ دکانیں کھلی بھی ہیں تو سامان کی قیمت منمانے طریقے سے وصول کی جارہی ہے ۔ انڈوں کی قیمت بھی آسمان چھو رہی ہے گوشت پر بیس بیس روپئے اضافی وصول کئے جارہے ہیں ۔ اعتراض کرنے پر دکاندار کہتا ہے سامان رکھ دو یا کھلے طور پر کہتا ہے کہ سامان ہے ہی نہیں ۔ اس معاملے میں دکانداروں کا کہنا ہے کہ باہر سے سامنا آنا بند ہوچکا ہے جو اسٹاک میں ہے فروخت کررہے ہیں ختم ہوجانے کہ بعد یونہی دکانیں بند ہوجائیں گی ۔ کچھ سبزی فروخت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ راستے میں سبزی لانے کے دوران پولیس ہمیں روک رہی ہے ہم پر بے وجہ لاٹھیاں برسا رہی ہے ۔ منھ پر زور زبردستی ماسک لگانے کو کہہ رہی ہے ورنہ منھ سے کم لاٹھیوں سے بات زیادہ کررہی ہے ۔ اسکے علاوہ عام لوگ راستے پر بازار بھی کرنے نکلتے ہیں تو انکے پیچھے پولیس ایسے پڑتی ہے جیسا کہ بہت بڑا کوئی مجرم ہو ۔ حیرانی تو تب ہوتی ہے کہ ہماری اس طرح کی حفاظت میں پولیس کم سوک وولنٹیئر زیادہ ہی لگے ہوئے ہیں ۔ صبح شام لوگوں روز کامعمول بنا کر پولیس ہمارے پیچھے پڑی ہوئی ہے ۔ خوف کے مارے لوگ ضرورت کے تحت بھی باہر نکلنے سے ڈر نے لگے ہیں ۔ اس معاملے میں گزشتہ کل محلے کے ساوجی کا بیٹا اپنی ماں کو لیکر دوا لانے میڈیکل دکان گیا تھا ۔ اس شخص کا گھر مل پھاڑی کے قریب ہے ۔ مگر اس کے باوجود پولیس اس پر لاٹھیاں برسانے لگی ۔ اس دوران وہ لڑکا سر سر کہہ کر چلاتا رہا کہ میں اپنی ماں کو دوا لینے کے لئے یہاں میڈیکل آیا ہوں مگر وہ کہاں سننے والا تھا ۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کو پلانے کے لئے بیبی فوڈ تک بازاروں میں دستیاب نہیں ہے ۔ ایک دوا فروخت کرنے والا دکاندار کا کہنا ہے کہ بہت جلد دواؤں کے اسٹوکس ختم ہونے والے ہیں جو دوائیں ابھی تک ہے ہم فروخت کررہے ہیں اسکے بعد کہاں سے لائیں گے اور ابھی چودہ اپریل تک ایسے ہی رہنے والا ہے ۔ اچانک سے لوگوں کے سامنے یہ بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اور آہستہ آہستہ یہ دوسری شکل اختیار کرنے جارہا ہے لوگ ہرکوئی سوچ سوچ کر پریشان ہورہا ہے چھوٹے بڑے بچے بزرگوں کے ذہن میں بس ایک ہی بات کہ پتہ نہیں کیا ہوگا ۔ ایسے میں لوگوں کے درمیان یہ بھی سننے کو مل رہی ہے کہ صحت ٹھیک نہیں لگ رہا خود کو لوگ بیمار بیمار محسوس کررہے ہیں ۔ ایسے میں لوگوں کی صحت بھی بگڑ سکتی ہے ۔ اس سے نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ لوگ کورونا سے نہیں تو بھوک سے ضرور مرجائیں گے ۔ لوگوں نے اخباری زرائع سے میڈیا والوں سے ریاستی وزیر اعلیٰ تک یہ بات پہونچا نے کی گزارش بھی کررہے ہیں کہ وقت رہتے شہر کے ساتھ ساتھ مضافات کے لوگوں کا خیال کیا جائے انکی صورتحال کی غوروخوض کریں ورنہ حالات بہت بگڑ جائیں گے ۔
Comments
Post a Comment