آپ کی خدمت میرا انعام ہے !! محمد وجیہ القمر مصباحی
صوفیہ مسجد، بانسبیڑیا ھگلی بنگال ۔
خدمت خلق کا پاٹھ ہر دھرم میں پڑھایا جاتا ہے۔ مگر اس پر عمل کرنے کا موقع بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہا ماری کے دور میں بھی لوگ ہر مسئلے کو دھرم کے چشمے سے دیکھ رہے ہیں۔
کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے
سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے
یہ صحیح ہے کہ فضا ناسازگار ہے، دشمن ہر دم تاک میں لگے بیٹھے ہیں، ہر طرف جھوٹ اور مکر وفریب کا جال بچھا ہوا ہے،لیکن کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سےمسئلے کا حل ہو جائے گا، نہیں ، ہر گز نہیں، اس کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔کام کرنا ہوگا ،خدمت خلق کرنی ہوگی، زمین پر اتر کر کام کرنا ہوگا۔ لچھے دار تقریروں سے یہ کام نہیں ہوگا، اسٹیج سے نیچے آنا ہوگا۔ Field Workکرنا ہوگا، سوشل میڈیا کے ذریعہ قیمتی مشورے دینے اور مضامین لکھنے سے بھی اس کا حل نہیں ہوگا ،جب تک ہم سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیں گے۔ اچھا سماج اور صالح معاشرہ کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ جو جہاں ہے، جس لائق ہے، اپنی صلاحیت ولیاقت کے مطابق کام کرے، ایک تنکے سے اگر ہوسکے تو ہم اپنے دیش واسیوں کی مدد کریں ۔
سب کریں مل کے ملک کی خدمت
دور ہو اس کی عسرت ونکبت
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ماحول خوش گوار، فضا مشک بار ہو، نفرتوں کے بادل چھٹ جائیں ،ہر جانب محبتوں کے پھول کھلیں، امن وشانتی کے,, من وسلویٰ،، ہماری آبادیوں میں اترتے نظر آئیں ،تو ہمیں اپنے عشرت کدہ سے باہر آنا ہوگا۔ مسجد ومدرسہ اورخانقاہ سے باہر نکل کر سماج کی خبر گیری ،خیر خواہی اور خیر سگالی کے لیے چند قدم چلنے ہوں گے۔تب ائمہ کی امامت، مدرسین کی صلاحیت اور پیران و عظام کی قیادت سے دنیا پورے طور پر فیض یاب ہوگی۔
فیض ہوگا جہاں میں عام میرا
خدمت خلق ہوگا کام میرا
کل تک خانقاہ ہر سماجی اور فلاحی کاموں میں پیش پیش رہا کرتی تھی، ہر آفت ومصیب میں انسانوں کے کام آتی تھی، زخمیوں کے زخم پر پٹی رکھتی تھی، دکھی دلوں کا سہارا بنتی تھی۔بھوک اور پیاس سے چھلنی جگر لوگوں کے لیے جسمانی اور روحانی خوراک فراہم کرتی تھی،دنیا اور آخرت سے مایوس لوگوں کو خانقاہ آس اورامید کی ایک کرن نظر آتی تھی، بے سہارا لوگوں کے لیے خانقاہ ایک مضبوط پناہ گاہ اور سہارا ہوا کرتی تھی۔ دھرم اور کرم پوچھے بغیر جو سب کو اپنےدامن میں جگہ دیتی تھی، لوگ بڑے ادب سے اس مبارک جگہ کوخانقاہ کہا کرتے تھے۔
آج خانقاہوں کا طریقہ اور نظریہ بالکل بدل چکا ہے (الاماشاء اللہ)بھانت بھانت کی مشربی اور مسلکی لڑائی خانقاہوں میں جاری ہے۔ خانقاہیں اپنے ہدف سے بالکل نا آشنا ہوچکی ہیں۔جن خانقاہوں کے مشائخ بلا تفریق مذہب وملت ہر انسان کی خدمت اپنے لیے عبادت سمجھتے تھے، آج ان خانقاہوں کے صاحبان سجادہ نے اپنے مریدین و معتقدین کی بھی امداد واعانت سے منہ موڑ لیا اور آنکھ بند کرلیا ہے۔
مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ امت اس نیک کام میں کیسے پیچھے رہ گئی، جس کے پیغمبر ﷺ نے یہ روحانی وآفاقی پیغام دنیا کو پہونچایا ہوکہ ’’تمام مخلوق اللہ کے کنبہ کی طرح ہے، اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہونچائے‘‘ جس نبی رحمت ﷺ کی امت کو یہ خدائی نصرت کا پیغام ملا ہو کہ ’’بندہ جب تک اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے‘‘ ۔
یقیناً یہ ہماری آپسی رنجش، بغض وعناد،حسد اور کینہ کا نتیجہ ہے کہ ہم آج بے یار ومددگار دست نگربنے ہوئے ہیں، سرکاری امداد واعانت کے منتظر بیٹھے ہیں، جب کہ ہماری موجودہ گورنمنٹ کا جو حال ہے وہ اس شعر سے مکمل عیاں ہے۔
تالیاں بجنے لگیں خدمت سرکار بجالانا ہے
اور سرکار ہی خود سنگ رہ منزل ہے
صوفیہ مسجد کمیٹی، بوڑوپاڑہ، بانسبیڑیا، ہگلی ،کے مخلص اراکین نےباہم بیٹھ کر یہ مشورہ کیا کہ لوگ پریشان ہیں ،بہت سے گھروں میں چولہا جلنا مشکل ہے۔ لہذا ہمیں اپنے علاقے کے حاجت مند لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے، پورے محلے کا دورہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ کن گھروں میںں راشن اور اناج کی ضرورت ہے اور کون لوگ ان کی مدد کے لیے آگے آرہے ہیں اور اپنا تعاون پیش کر رہے ہیں۔
ہم لوگوں نے اپنے پورے محلے کا دورہ کیا ،کافی لوگوں نے سراہا اور اپنا تعاون پیش کیا ،ضرورت مند لوگوں کے چہرے پراس وخوف اور نا امیدی کے ماحول میں ایک ہلکی سی چمک دیکھنے کو ملی، کچھ لوگوں نے اپنی خوشی کا اظہار ان لفظوں میں کیا کہ’’ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ اس مشکل گھڑی میں ہمارے سماج میں ہمارا کوئی مددگار نہیں ہے مگر آپ لوگوں کو دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ کوئی تو ہے جو ہمارے پیچھے کھڑا ہے،بڑےخلوص اور محبت سے ماہ مبارک کی آمد آمد کے مبارک موقع پر ضرورت مندوں میں ایک تحفہ پیش کیا گیا ۔
یہ خدمت جو صوفیہ مسجد کے اراکین نے پیش کی ہے ،اس مبارک سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ،بالخصوص دیگر اراکین مسجد سے گزارش ہے کہ آپ بھی کچھ کریں تاکہ مسجد کے حوالے سے ملک و قوم کے نام ایک خوب صورت پیغام پہونچے،اس خلوص اور جذبے کے ساتھ کام کریں کہ
روشنی پہونچانا میرا کام ہے
آپ کی خدمت میرا انعام ہے
خدمت خلق کا پاٹھ ہر دھرم میں پڑھایا جاتا ہے۔ مگر اس پر عمل کرنے کا موقع بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہا ماری کے دور میں بھی لوگ ہر مسئلے کو دھرم کے چشمے سے دیکھ رہے ہیں۔
کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے
سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے
یہ صحیح ہے کہ فضا ناسازگار ہے، دشمن ہر دم تاک میں لگے بیٹھے ہیں، ہر طرف جھوٹ اور مکر وفریب کا جال بچھا ہوا ہے،لیکن کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سےمسئلے کا حل ہو جائے گا، نہیں ، ہر گز نہیں، اس کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔کام کرنا ہوگا ،خدمت خلق کرنی ہوگی، زمین پر اتر کر کام کرنا ہوگا۔ لچھے دار تقریروں سے یہ کام نہیں ہوگا، اسٹیج سے نیچے آنا ہوگا۔ Field Workکرنا ہوگا، سوشل میڈیا کے ذریعہ قیمتی مشورے دینے اور مضامین لکھنے سے بھی اس کا حل نہیں ہوگا ،جب تک ہم سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیں گے۔ اچھا سماج اور صالح معاشرہ کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ جو جہاں ہے، جس لائق ہے، اپنی صلاحیت ولیاقت کے مطابق کام کرے، ایک تنکے سے اگر ہوسکے تو ہم اپنے دیش واسیوں کی مدد کریں ۔
سب کریں مل کے ملک کی خدمت
دور ہو اس کی عسرت ونکبت
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ماحول خوش گوار، فضا مشک بار ہو، نفرتوں کے بادل چھٹ جائیں ،ہر جانب محبتوں کے پھول کھلیں، امن وشانتی کے,, من وسلویٰ،، ہماری آبادیوں میں اترتے نظر آئیں ،تو ہمیں اپنے عشرت کدہ سے باہر آنا ہوگا۔ مسجد ومدرسہ اورخانقاہ سے باہر نکل کر سماج کی خبر گیری ،خیر خواہی اور خیر سگالی کے لیے چند قدم چلنے ہوں گے۔تب ائمہ کی امامت، مدرسین کی صلاحیت اور پیران و عظام کی قیادت سے دنیا پورے طور پر فیض یاب ہوگی۔
فیض ہوگا جہاں میں عام میرا
خدمت خلق ہوگا کام میرا
کل تک خانقاہ ہر سماجی اور فلاحی کاموں میں پیش پیش رہا کرتی تھی، ہر آفت ومصیب میں انسانوں کے کام آتی تھی، زخمیوں کے زخم پر پٹی رکھتی تھی، دکھی دلوں کا سہارا بنتی تھی۔بھوک اور پیاس سے چھلنی جگر لوگوں کے لیے جسمانی اور روحانی خوراک فراہم کرتی تھی،دنیا اور آخرت سے مایوس لوگوں کو خانقاہ آس اورامید کی ایک کرن نظر آتی تھی، بے سہارا لوگوں کے لیے خانقاہ ایک مضبوط پناہ گاہ اور سہارا ہوا کرتی تھی۔ دھرم اور کرم پوچھے بغیر جو سب کو اپنےدامن میں جگہ دیتی تھی، لوگ بڑے ادب سے اس مبارک جگہ کوخانقاہ کہا کرتے تھے۔
آج خانقاہوں کا طریقہ اور نظریہ بالکل بدل چکا ہے (الاماشاء اللہ)بھانت بھانت کی مشربی اور مسلکی لڑائی خانقاہوں میں جاری ہے۔ خانقاہیں اپنے ہدف سے بالکل نا آشنا ہوچکی ہیں۔جن خانقاہوں کے مشائخ بلا تفریق مذہب وملت ہر انسان کی خدمت اپنے لیے عبادت سمجھتے تھے، آج ان خانقاہوں کے صاحبان سجادہ نے اپنے مریدین و معتقدین کی بھی امداد واعانت سے منہ موڑ لیا اور آنکھ بند کرلیا ہے۔
مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ امت اس نیک کام میں کیسے پیچھے رہ گئی، جس کے پیغمبر ﷺ نے یہ روحانی وآفاقی پیغام دنیا کو پہونچایا ہوکہ ’’تمام مخلوق اللہ کے کنبہ کی طرح ہے، اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہونچائے‘‘ جس نبی رحمت ﷺ کی امت کو یہ خدائی نصرت کا پیغام ملا ہو کہ ’’بندہ جب تک اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے‘‘ ۔
یقیناً یہ ہماری آپسی رنجش، بغض وعناد،حسد اور کینہ کا نتیجہ ہے کہ ہم آج بے یار ومددگار دست نگربنے ہوئے ہیں، سرکاری امداد واعانت کے منتظر بیٹھے ہیں، جب کہ ہماری موجودہ گورنمنٹ کا جو حال ہے وہ اس شعر سے مکمل عیاں ہے۔
تالیاں بجنے لگیں خدمت سرکار بجالانا ہے
اور سرکار ہی خود سنگ رہ منزل ہے
صوفیہ مسجد کمیٹی، بوڑوپاڑہ، بانسبیڑیا، ہگلی ،کے مخلص اراکین نےباہم بیٹھ کر یہ مشورہ کیا کہ لوگ پریشان ہیں ،بہت سے گھروں میں چولہا جلنا مشکل ہے۔ لہذا ہمیں اپنے علاقے کے حاجت مند لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے، پورے محلے کا دورہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ کن گھروں میںں راشن اور اناج کی ضرورت ہے اور کون لوگ ان کی مدد کے لیے آگے آرہے ہیں اور اپنا تعاون پیش کر رہے ہیں۔
ہم لوگوں نے اپنے پورے محلے کا دورہ کیا ،کافی لوگوں نے سراہا اور اپنا تعاون پیش کیا ،ضرورت مند لوگوں کے چہرے پراس وخوف اور نا امیدی کے ماحول میں ایک ہلکی سی چمک دیکھنے کو ملی، کچھ لوگوں نے اپنی خوشی کا اظہار ان لفظوں میں کیا کہ’’ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ اس مشکل گھڑی میں ہمارے سماج میں ہمارا کوئی مددگار نہیں ہے مگر آپ لوگوں کو دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ کوئی تو ہے جو ہمارے پیچھے کھڑا ہے،بڑےخلوص اور محبت سے ماہ مبارک کی آمد آمد کے مبارک موقع پر ضرورت مندوں میں ایک تحفہ پیش کیا گیا ۔
یہ خدمت جو صوفیہ مسجد کے اراکین نے پیش کی ہے ،اس مبارک سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ،بالخصوص دیگر اراکین مسجد سے گزارش ہے کہ آپ بھی کچھ کریں تاکہ مسجد کے حوالے سے ملک و قوم کے نام ایک خوب صورت پیغام پہونچے،اس خلوص اور جذبے کے ساتھ کام کریں کہ
روشنی پہونچانا میرا کام ہے
آپ کی خدمت میرا انعام ہے
Comments
Post a Comment