تیلنی پاڑہ بموں کی آواز گونج اٹھا اوپر دھواں نیچے اینٹ پتھروں کی برسات تھی گھروں سے اللہ رحم مولانا رحم کی چیخیں سنائی دے رہی تھی پولیس تماشائی بنی رہی ۔
ہگلی12/مئی ( محمد شبیب عالم ) نہ جانیں اس قوم سے اللہ تعالی کیوں ناراض ہے ۔ آئے دن کسی نہ کسی شکل میں مسلمانوں پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں ۔ ایک ختم نہیں ہورہا ہےکہ دوسرا شروع ہوجا رہے ہیں ۔ ابھی پورے ملک میں کورونا وائرس کے مرض میں جتنے لوگ متاثر نہیں ہوئے اس سے کہیں زیادہ ہندوستان کے اقلیتی طبقہ کورونا کی آڑ میں نفرت کے شکار ہوگئے اور اسی کورونا کے نفرت میں گزشتہ تین دنوں سے ہگلی ضلع کے تیلنی پاڑہ بھدریشور کے لوگ نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ گزشتہ اتوار کی شام جو ہوا یہاں دوفرقوں کے درمیان نفرت کی چنگاری جلائی گئی وہ دوسرے دن یعنی سوموار کے روز دن بھر بلکل خاموش رہی ۔ مگر یہاں کے اقلیتوں کو کیا پتہ تھا کہ چنگاری بجھی نہیں ہے وہ اندر ہی اندر سلگ رہی ہے اور آج تیسرے دن یعنی منگل کی صبح گیارہ بجے اچانک سے یہ چنگاری اس قدر بھڑکی کہ پورے علاقے کو اپنی آغوش میں لے لی ۔ اچانک ایک بم کی آواز سنائی دی اور تھوڑی ہی دیر میں پورا تیلنی پاڑہ بموں کی آواز سے گونج اٹھا ۔ گلی محلوں میں بھگدڑ سی مچ گئی بچاؤ بچاؤ کی آوازیں آنے لگی ۔ کئی لوگ زخمی ہوگئے مگر کیا کرتے پولیس کی خوف سے وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکے اور اگر نکلتے تو جاتے کہاں ڈاکٹر کہاں ہیں ۔ آج مقامی زرائع سے ملی اطلاع کے مطابق تیلنی پاڑہ راجہ بازار میں میونسپلٹی فلیٹ کے پاس اچانک کچھ شرپسند آئے اور وہاں پتھر بازی شروع کردیا ۔ لوگ حیران ہوگئے کہ ارے یہ کیا ہوگیا ۔ ابھی یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ فیض احمد فیض اسکول کے قریب شگون بگان علاقے میں بلکل اسی عمل کو دہرائی گئی اور تھوڑی ہی دیر میں چاروں جانب سے اقلیتی علاقوں کو شرپسند نے اپنی گرفت میں لے لیا ۔ چاروں طرف سے بم اندازی آگ زنی شروع ہوگئی ۔ ساتھ ہی اینٹ پتھروں کی برسات بھی شروع ہوگئی ۔ حالانکہ پولیس یہاں گزشتہ اتوار کی رات سے پہریداری پر لگی ہوئی ہے ۔ مگر اس کے بعد بھی شرپسندوں نے اتنی بڑی حماقت کیا ۔ لوگوں کی شکایت ہےکہ پولیس بھی شرپسندوں کا ساتھ دے رہی ہے وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور رہ رہ کر گلی محلوں میں آنسو گیس کے گولے داگ کر فرار ہو جارہی ہے ۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹوں جاری رہا ۔ حالات اس قدر بےقابو ہوگئے کہ گھر کی اقلیت طبقے کی عورتیں بزرگ بچے خود کو محفوظ کرنے کے لئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے گھروں سے رونے کراہنے کی آوازیں آرہی تھی لوگ صدائیں لگا رہے تھے کہ اے اللہ اے مولا ہم پر رحم کر ۔ ہندو علاقے میں قہر برپائے ہوئے ہیں اللہ ہماری جان کی حفاظت کر ۔ لیکن انکی آواز کو کوئی سنے والا کوئی نہیں تھا ۔ یہاں کے رہنے والے اقلیت طبقہ دوسرے علاقے کے جان پہچان والے لوگوں سے مدد کی گزارش کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہمارے لئے کچھ کریں پولیس ہماری باتیں نہیں سن رہی ہے ۔ ادھر تیلنی پاڑہ کی آج تازہ صورتحال پر دوسرے علاقے سے لوگ چندن نگر کے سی پی اے سی پی اور دیگر اعلیٰ افسران سے ان مظلوموں کی حفاظت کی گہار لگارہے تھے ۔ مگر نتیجہ زیرو رہا ۔ کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ دریا پار کانکی نارہ سے بی جے پی اپنے لوگوں کے زریعہ ہتھیار کی سپلائی کروایا ہے اور اسی کے سہہ پر آج اتنا بڑا واردات پیش آیا ہے ۔ دوسری اہم بات آج جو یہاں حالات بگڑی ہے اسکا قصوروار ایک شخص ہے جس نے صبح دس بجے سے قبل وہ اپنے فیس بک آئی JAI SREE RAM پر براہ راست وڈیو جاری کرکے یہ کہہ رہا تھا کہ " چندن نگر بھدریشور اور تیلنی پاڑہ کے تمام مرد سن لو اب سینا تان کر کھڑے ہوجاؤ ہر ہر مہادیو بولکر لڑائی پر اتر جاؤ ۔ " رونا مت روؤں مار کھاکر اپنی تصویریں فیس بک پر پوسٹ کرکے مت روؤں ۔ کیا تم بھول گئے دتو پوکھر کے لوک ناتھ پوجا کے دن تم اقلیتوں کا مقابلہ کیسے کیا تھا ۔ اس دن مار کا بدلہ مار سے لیا تھا ۔ گوبر ڈانگہ سے سبق لو کے اقلیتوں کے جانب سے مندر کی جگہ مدرسہ قائم کرنے کے معاملے میں مار کا بدلہ مار سے لیا تھا ۔ تو آپ لوگ کیوں نہیں کرسکتے آپ رونا چھوڑیں اور ہر ہر مہادیو کہہ کر بھیڑ جائیں اور اس نے کہا کہ یہی کہوں کہ تم ایک کو مارو گے تو ہم تم تین کو ساتھ لیکر مریں گے ۔ یہ بہت ڈرپوک ( بھیتو ذات ) ہیں کسی پر حملہ کرنے کے لئے کبھی اکیلا نہیں جاتے ہیں ایک کو مارنے کے لئے سو لوگ جاتے ہیں ۔ یہ شخص مسلسل تین منٹ 56 سکنڈ تک وڈیو پر لوگوں کو اکساتے رہا ۔ اسکے ٹھیک ایک گھنٹے بعد ہی تیلنی پاڑہ کی فضاء آلودہ ہوگئی اور حالات بے قابو ہوگئے ۔ دوپہر کے وقت شگون بگان کے قریب قبرستان میں بھی بم ماری گئی ۔ وہیں گڑھ دھڑ نامی علاقے کی ایک باڑی جہاں چالیس پچاس اقلیتی طبقہ کے لوگ رہتے تھے اس پوری باڑی گھر کو توڑ پھوڑ کر لوٹ لی گئی ہے ۔ بتایا جارہا ہے کہ فیض احمد فیض اسکول کے قریب رہنے والا گڈو نامی لڑکا شدید طور پر زخمی ہواہے ۔ اس کے پیٹ سینے اور سر پر گہری چوٹ آئی ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں دریا کے اس پار بھانٹ پاڑہ جگتدل اور بھی کئی جگہوں سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے حمایتی علاقے میں داخل ہوگئے ہیں اور اقلیتوں کے گھروں کو توڑ پھوڑ کر آگ لگا دے رہے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی بارکپور ایم پی اور یہاں کی ایم پی لاکٹ چٹرجی کے اشارے پر آج یہ سب ہورہا ہے ۔ لاکٹ پہلے بھی کئی بار مسلمانوں کے خلاف زہر اگل چکی ہے ۔ کل بھی اس نے اپنے لوگوں کے ساتھ میٹنگ کی تھی ۔ بتایا جاتا ہے کہ شام کو پانچ بجے پولیس کی بڑی گاڑی یہاں آئی ہے تب سے علاقے میں تھوڑی خاموشی ہے ۔ مگر پل کے پاس بازار میں گھاٹ کے قریب شرپسند کھلے عام بیٹھے ہوئے ہیں پولیس انکے علاقوں میں جاتی تک نہیں ہے اور صرف مخصوص فرقہ کو دیکھتے ہی دوڑا رہی ہے ۔
Comments
Post a Comment