ہاتھ میں استرا پیٹ میں بھوک لئے لوگوں کی حجامت بنانے کے لئے گلی محلوں میں گھوم رہے ہیں نائی ۔

ہگلی8/مئی ( محمد شبیب عالم ) کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ 24مارچ سے لگاتار قسطوار لاک ڈاؤن کی مدت میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ ایک طرح حکومت جہاں لوک ڈاؤن سے کورونا پر قابو پانے کا دعویٰ کررہی ہے ۔ وہیں اسکے برعکس ملک مالی تنگی کے جانب تیزی سے بڑھتا جارہا ہے ۔ ساتھ ہی شروعات میں صرف غریب نچلے طبقے کی حالت جہاں خراب ہوتی دیکھائی دی تھی ۔ اب میڈل کلاس درمیانے طبقے کے لوگوں کی حالت بدترین ہوتی جارہی ہے ۔  دو پیسے کی روزگار دو وقت کی روٹی جٹانے کےلئے کبھی کسی کمپنی میں کام کرنے والا شخص آج جوتا پالس ، کہیں پان بٹہ تختی پر لیکر بیٹھا ہوا ہے ۔  وہیں آج جہاں کچھ علاقوں میں کچھ دکانیں کھولنے کی اجازت ملنے کے بعد بھی نائی ( حجام ) کی دکانیں کھولنے کی سخت پابندی لگائی گئی ہے ۔ جس کی وجہ سے نائی برادری سماج کے درمیانی ناامیدی کے ساتھ مایوسی بھی دیکھی جارہی ہے ۔ لیکن بیچارہ پیٹ کیسے مانے اسے پالنا تو ہوگا ہی اور اسی وجہ سے آج ہاتھوں میں استرا پیٹ میں بھوک لئے لوگوں کی حجامت کرنے کے لئے گلی محلوں میں گھومتے دیکھائی دے رہے ہیں ۔   اس سلسلے میں آج ایک نائی سے بات ہوئی تو اس نے اپنا نام پوشیدہ رکھتے ہوئے کہا کہ پولیس اور ضلع انتظامیہ ہم نائی ( حجام ) کو ہی کورونا پیداوار کی جڑ سمجھ رہی ہے اور ہماری دکانیں کورونا وائرس کی مرکز تسلیم کرچکی ہے ۔ اسی وجہ سے ایک دم سختی کے ساتھ ہم پر پابندی لگائی گئی ہے ۔ ایسے میں ہم کہاں جائیں کیا کریں ۔ بھوکے پیٹ نیند سے جاگ تو جاتے ہیں مگر ہم نہیں تو کیا ہمارے بچے بھوکے پیٹ سو سکتے ہیں ؟  کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت راش تو دے ہی رہی ہے ۔۔۔ ! لیکن بھلا صرف چاول آٹا ملنے سے ہی ہم زندہ رہ جائیں گے ۔ اسے پکانے کے لئے تیل لکڑی کوئلے یا گیس کی ضرورت ہوگی اور یہ تمام چیزیں کیا بغیر پیسوں کے ملتے ہیں ؟  یہی وجہ ہے کہ صبح ہوتے ہی سحر کے بعد سے ہی پولیس کی نظروں سے بچ بچاکر گلی محلوں میں گھومتے رہتے ہیں یا ایک روز قبل ہی فون پر رابطہ کرکے لوگوں کے گھر جاتے ہیں ۔ اس سے دو پیسے کی آمدنی ہوجاتی ہے ۔  ان سے پوچھا گیاکہ کورونا انفیکشن اور سماجی دوری کا کیسے خیال رکھتے ہیں ؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہاں بلکل ہم کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ کسی کی جان کو جوکھم میں ڈال کر پیسے کمائیں ۔ ہم صرف اپنا استرا اور کینچی ہی لیکر جاتے ہیں ساتھ میں سینیٹائز کپ بوتل بھی اور گراہک کے سامنے اپنے اوزار کو سینیٹائز کرتے ہیں اور تولیہ یا گمچھا گراہک کا اپنا ہوتاہے ۔ بس اسی طرح سے روزانہ تو نہیں مگر ہفتے میں دو چار سو روپئے کی آمدنی ہوجارہی ہے ۔  لیکن یہی سلسلہ رہا اور حکومت ہمارے بارے میں کچھ نہیں سوچتی ہے تو آئندہ دنوں ہم ہمارے بال بچوں کی پرورش مشکل ہوجائے گی ۔

Comments

Popular posts from this blog

اپنا حق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کریں جس سے عوام کا عوام سے سامنا ہونے کا اندیشہ ہو : مولانا حلیم اللہ قاسمیجمعیۃ علماء مہاراشٹر کا یکروزہ تربیتی اجلاس بحسن و خوبی اختتام پذیر

अग्रणी चिकित्सा शिक्षा और व्यापक देखभाल HOPECON'25 कोलकाता में तैयार

کلکتہ کے مٹیا برج گارڈن ریچ( میٹھا تلاب) میں 26 جنوری ریپلک ڈے کے موقع پر جےء ہند ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے  کینسر آورنیس ایجوکیشنل کانفرنس پروگرام منعقد کیا گیا