لاک ڈاؤن کے معاملے میں سبھی سیاست داں اندھیرے میں ہیں یا عوام کو اندھرے میں رکھے ہیں ؟ : محمد خورشید عالم دہلوی
ہگلی27/جولائی ( محمد شبیب عالم ) جسطرح کورونا کی کوئی دوا اب تک ایجاد نہیں ہوئی ہے اور اسکے لئے ملک بیرون ملک سب اندھرے میں ہاتھ پیر مار رہیں ہیں ۔ اسی طرح سے لاک ڈاؤن کے معاملے میں سبھی اندھیرے میں ہیں ۔ ہر سیاست داں کورونا سے لڑنے کی بات کررہا ہے ۔ مگر کورونا سے مقابلہ کرنے میں کسی کی ایک جیسی پالیسی نظر نہیں آرہی ہے ۔ کسی صوبے میں تالا بندی ( لاک ڈاؤن ) جزوی طور پر ہے تو کہیں بہت سختی سے عمل درآمد ہورہا ہے ۔ یہ باتیں سابق ٹیچر و سماجی کارکن محمد خورشید عالم دہلوی نے کہا انہوں نے لاک ڈاؤن کی پالیسی پر یہیں نہیں رکے اور کہا کہ یوپی میں لاک ڈاؤن کا قانون الگ تو بہار میں کچھ اور طریقے سے ۔ وہیں دہلی میں الگ قسم کی پابندیاں ہیں تو مغربی بنگال میں الگ قسم کی ۔ کسی کو بھی کچھ بھی ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ کورونا سے بچنے کے لئے کیسے کیا کارگر ثابت ہوگا ۔ جس کو جس طرح سے سمجھ آرہی ہے وہ اپنے طور پر لوگوں پر پابندی ( لاک ڈاؤن ) لگادیتا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے unlock کی بات ہوئی تو لوگوں نے راحت محسوس کیا ۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ صوبائی حکومت پر یہ تھوپ دی گئی کہ وہ اپنے طریقے سے لاک ان لاک بڑھاتے گھٹاتے رہیں ۔ اب کیا تھا صوبائی حکومتیں کبھی سات دنوں کے لئے کوئی پندرہ دنوں کے لئے تو کوئی ہفتے میں دو دن تو کوئی سنیچر اتوار کو دوپہر سے رات تک کےلئے پابندیاں عائد کرنے لگی ۔ کہیں میٹرو بند تو کہیں پروازوں پر پابندی تو کہیں بس سروس شروع تو کہیں خصوصی ٹرینوں پر پابندی تو کہیں اسپیشل ٹرینیں چلائی جانے لگیں ۔ سرکاری غیرسرکاری بسوں کی آمدورفت بحال کردی گئی ۔ یہ کہکر کہ سیٹ سے زیادہ مسافروں کو سوار ہونے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ بس میں سوار ہونے والوں کو سینیاٹائز دیا جائے گا ۔ صبح شام ان بسوں کو بھی سینیٹائز کیا جائے گا ۔ لیکن دو چاردنوں میں ہی اسکی صورت بدل گئی ۔ آج بسوں میں جو لوگ سفر کررہے ہیں وہی بتائیں گے ۔ چنسورہ سے باغ کھال جانے والی بسیں اب بالی دکھینیشور تک جارہی ہے ۔ ایک دفعہ اس بس میں سوار ہوکر دیکھیں کہ سرکاری ہدایت پر کتنا عمل کیا جارہا ہے ۔ ساتھ ہی ریاستی حکومت کی جانب سے بس مالکان کو مالی مدد کے باوجود بھی دو گنی تین گنی اضافی کرایہ وصول کی جارہی ہے ۔ حکومت ٹرینں اس لئے نہیں چلارہی ہےکہ یہاں مسافروں کی خاصی بھیڑ ہوتی ہے کورونا وائرس کا انفیکشن تیزی سے پھیل جائے گا ۔ تو کیا کورونا اعلان سرٹیفکیٹ دے رکھا ہے کہ بسوں میں یا کل کارخانوں میں جتنی بھیڑیں لگا لو میں وہاں نہیں جاؤں گا ؟ لیکن ٹرین میں جس دن سوار ہوئے تمہاری خیر نہیں ۔ ساتھ ہی شادی بیاہ اور میت میں بھی زیادہ تعداد میں تمہیں دیکھ لیا تو کسی کو بھی نہیں چھوڑونگا ۔ انہوں نے اور کہا کہ جتنے دن رمضان کا مہینہ رہا اور جب تک عید نہیں آگئی کورونا تیزی کے ساتھ لوگوں کو راستوں پر تلاش کرتی پھرتی تھی اسی وجہ سے سختی سے دکانیں بھی بند رہیں اور جیسے ہی عید کی نماز لوگوں نے ادا کرلیا ۔ ٹھیک اسکے دوسرے دنوں سے بازار دکانیں کھولنے کی اجازت دے دی گئی ۔ بلکل اسی طرح عید الاضحیٰ آمد کی خبر ملی ایک بار پھر کورونا حاوی ہوگیا یہ دیکھ کر حکومت پھر سے حرکت میں آگئی اور ہفتہ وار لاک ڈاؤن شروع کردی تاکہ ہم کورونا انفیکشن کے شکار نہ ہوجائیں ۔ اب اس بات کو لیکر مسلمان بھائی خاصے پریشان ہیں کہ عید الاضحیٰ کیسے منائیں گے نماز پڑھنے پر مسجدوں میں جمع ہونے پر بھی حکومت کی پابندیاں لگی ہوئی ہے ۔ پھر بھی مسلمان صبر کئے ہوئے ہیں ۔ پورے رمضان المبارک کے مہینے میں تراویح کی نماز حکومت کی ہدایت کے مطابق گھروں میں ادا کئے ۔ عید کی نماز بھی گھروں میں ادا کئے ۔ عید قرباں کی نماز بھی گھروں میں ادا کر لینگے ۔ مگر حکومت سے میری گزارش ہےکہ جہاں کام پر بازار جانے دفتر سرکاری ہو یا غیرسرکاری بسوں میں بھیڑ لگاکر جاسکتے ہیں ۔ حکومت ورچوئل ریلی کے نام پر اپنے پارٹی دفتروں میں لوگوں کو گھنٹوں یکجا کرسکتی ہے ۔ معاشرتی فاصلہ کے نام پر میٹنگ میچل جلسہ جلوس احتجاج مظاہرے کر سکتی ہے ۔ کبھی ڈیزل کےلئے کبھی پیٹرول کےلئے تو کبھی رسوئی گیس کےلئے تو کبھی دوسری باتوں کو لیکر راستے پر سیکڑوں کی تعداد میں پارٹی رہنماء کارکنان حامی یکجا ہو سکتے ہیں تو کیا قصور کیا ہے مسلمانوں نے دس منٹ کےلئے اسی معاشرتی فاصلے کی بنیاد پر نماز نہیں ادا کر سکتے ؟ ابھی ابھی ساون کا تہوار اس سے قبل رتھ پوجا میں رہنماؤں کو بھیڑ میں شامل ہوکر تہوار مناتے دیکھا گیا وہ بھی جلوس کی شکل میں راستوں پر بھیڑ لگاکر تو یہ اقلیتوں کےلئے خصوصی قواعد قانون کیوں ۔ میں ریاستی وزیر اعلیٰ محترمہ ممتا بنرجی سے گزارش کرونگاکہ کم سے کم معاشرتی فاصلے کی بنیاد پر ہی ہمیں مسجدوں میں عبادت کرنے کی منظوری دیں ۔ ساتھ ہی عیدالاضحیٰ کی نماز ہم آپکی ہدایت کے مطابق ہی ادا کریں گے ۔ آپ چاہیں تو پولیس ضلع انتظامیہ کی نگرانی میں ہمیں نماز ادا کرنے کی اجازت دے سکتی ہیں ۔ بس ہمیں پندرہ سے بیس منٹ ہی چاہئے ہاں ہم یہ بھی کہیں گے کہ ہم نماز کے دوران معاشرتی فاصلے کا خیال ضرور رکھیں گے ۔
Comments
Post a Comment