" لوکل ٹرینیں چلیں گی تو کورونا ہوجائے گا " ہمیں موت سے بچانے کی تدبیر ہے یا موت کے حوالے کرنے کی سازش : عوام
ہگلی/یکم اکتوبر ( محمد شبیب عالم ) ملک میں کورونا وباء سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے گزشتہ 24 مارچ سے لاک ڈاؤن شروع ہوئی اور اسی دن سے لوگوں کے آمدورفت پر بھی پابندی لگادی گئی ۔ سرکاری غیرسرکاری بسوں کے ساتھ تمام ٹرینیں بھی بند کردی گئی ۔ لیکن چار ماہ بعد آن لاک کاسلسلہ شروع ہوا ۔ آہستہ
آہستہ تمام کچھ کھلنے لگے ۔ کل کارخانوں سے لیکر سرکاری غیرسرکاری دفتر بھی کھل گئے ۔ مگر لوکل ٹرینوں کی پابندی برقرار رہی ۔ لوگ اسی امید میں 6ماہ کا وقت گزار دیئے کہ شاید اب لوکل ٹرینوں کی آمدورفت شروع ہوجائے ۔ دیکھتے دیکھتے مارچ سے اکتوبر کا مہینہ آگیا ۔ مگر لوکل ٹرین چلنے چلانے کے متعلق کہیں سے کوئی سراغ تک نہیں ملی ۔ گزشتہ کل ان لاک چار ختم ہوا ۔ اب لوگ ان لاک پانچ سے امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس بار لوکل ٹرینوں کے پہیئے ضرور گھومیں گے ۔ مگر یہ امید بھی جاتی رہی ۔ مرکز سے لیکر ریاست تک حکومتیں سنیما حال ، پارک ، سویمنگ پل اور دیگر تفریحی مقامات کو کھولنے کی اجازت دے دیئے ۔ مگر لوکل ٹرین چلانے کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا ۔ اسی سلسلے میں آج ضلع میں کچھ لوگوں سے بات کی گئی تو لوگوں میں حکومت کے رویئے کے خلاف نفرت دیکھنے کو ملا ۔ پچاس سے زائد لوگوں سے جب لوکل ٹرینوں کے مطابق بات کی گئی تو لوگوں نے مختلف انداز میں حکومت کے خلاف برہمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کیا سہی میں ملک کے عوام کو کورونا کے نام پر موت سے بچارہی ہے ۔ یا کورونا کے آڑ میں ہم سب کو موت منھ میں دھکیل رہی ہے ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ نام پوشیدہ رکھتے ہوئے کہا کہ آج مرکزی حکومت ہوں یا ریاستی حکومت اپنی پارٹی تشہیری مہم میں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں راستوں پر جلسہ جلوس کرتے ۔ ایک دوسرے سیاسی جماعت پر برتری اور مخالف نعرے لگاتے ہوئے دیکھائی دیتی ہے ۔ جہاں کسی بھی طرح کی معاشرتی فاصلہ ماسک کا اہتمام نہیں ہوتا ہے ۔ یہاں تو کورونا نہیں پھیلتی ہے ۔ لیکن شمشان میں مردوں کو جلانے اور قبرستانوں میں میت دفن کے لئے لےجاتے وقت محدود لوگوں کو شرکت کرنے کی ہدایت جاری کردی جاتی ہے ۔ مسجدوں میں عبادت سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ تمام طرح کے قوانین پیش کردیئے جاتے ہیں ۔ کل کارخانوں میں ہزاروں لوگ ایک ساتھ کام کرتے ہیں ۔ انکے درمیان کورونا نہیں پھیل تا ۔ آج گزشتہ تین ماہ سے سرکاری غیرسرکاری بسیں چل رہی ہیں ۔ غیرسرکاری بسوں میں مسافروں کی تعداد دیکھ کر ان بسوں میں سوار ہونے کی ہمت نہیں ہوگی ۔ یہاں تو کسی کو کورونا ہونے کی حکومت کو فکر نہیں ہورہی ہے ۔ اسکے علاوہ غیرسرکاری بسوں میں مسافروں سے غیرضروری طور پر اضافی کرایہ بھی اصول کیا جارہا ہے ۔ حکومت کہتی ہے کہ ہمیں سب پتہ ہے ۔ لیکن ایسا کرکے کیا واقعی حکومت کو عوام کی فکر ستا رہی ہے ۔ ہمیں تو نہیں لگتا ہے کہ سہی معنوی میں حکومت ہماری فکر کررہی ہے ۔ نہیں ہمیں وقت سے پہلے بےموت مارنے کی سازش کررہی ہے ۔ ورنہ جہاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنی نوکریاں گنواں چکے ہیں ۔ بےروزگاری کی وجہ سے لوگوں کا زندہ رہنا مشکل ہوچکا ہے اور اس صورتحال میں خود کا پیٹ پالنے اور بال بچوں کو بھوکا سونے سے بچانے کے لئے غیرسرکاری بسوں آٹو ٹوٹو کو آمدورفت کا زریعہ بنائے ہیں ۔ لیکن یہاں ان سے غیرضروری طور پر اضافی کرایا اصول کیا جارہا ہے ۔ آخر کب تک ایسا چلےگا ۔ اس مہنگائی کے زمانے میں پہلے ہی لوگ پانی پینے کے لئے روز کنواں خود تے تھے اور پانی پیتے تھے ۔ اور آج تو مکمل طور پر کاروبار ٹھپ پڑا ہوا ہے ۔ لوگ بےروزگار ہوچکے ہیں ۔ اب کریں تو کیا کریں کتنی رقم جمع کرکے رکھے ہیں جو 6 مہینے 7 مہینے تک بیٹھ کر کھاتے رہیں گے ۔ اوپر سے روزگار کی
امید بھی نہیں دیکھائی دے رہی ہے ۔ یہ تمام مسائل لوکل ٹرینوں کی مکمل آمدورفت بند ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے ۔ آج اگر ٹرینیں چلتی تو اتنے مسائل پیش نہیں آتے ۔ کچھ لوگوں نے خود کو بےزار محسوس کرتے ہوئے کہا کہ آخر کریں تو کیا کریں ؟ کہاں جائیں ۔ کیسے بال بچوں کی پرورش ہو ۔ حکومت کو لوکل ٹرین چلانے میں اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے ۔ ہمیں کورونا سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ سب کیا جارہا ہے ؟ یا اسکے پیچھے بڑی کوئی سازش رچی جارہی ہے ۔ آخر میں لوگوں نے مرکزی و ریاستی حکومت سے بےزاری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ چھوڑ دو ہمیں مرنے کے لئے ایک دن تو ہمیں مرجانا ہی ہے ۔ تمہارے بچانے سے تو ہمیں موت نہیں چھوڑ دیگی ۔ بہتر ہوگا ہمیں مرجانے دیا جائے اور برائے مہربانی لوکل ٹرینوں کی آمدورفت بحال کی جائیں ۔ کچھ لوگوں نے تویہ بھی کہا کہ یاد رکھنا اس تکلیف کا بدلہ عوام لینا جانتی ہے اور وہ دن دور نہیں جب عوام خود کا فیصلہ سنائیں گے ۔
Comments
Post a Comment