میرے دست و بازو ۔۔۔۔۔۔۔ شبیرذوالمنان شیب پور ہوڑہ
دریائے ہگلی کے کنارےآبادمعروف صنعتی شہر شیب پور ہوڑہ میں مذہبی، ملی، سماجی، ادبی، لسانی اور تعلیمی خدمتگاروں نے ہر دور میں اس علاقے کی عظمت کو چار چاند لگانے میں اپنی زندگی کے بیشتر اوقات صرف کئے۔ان میں سے بعض کے نام اور کارنامے تو طشت از بام ہوئے مگراُن میں سے بہتوں کو وہ شہرت و ناموری نصیب نہیں ہوئی جسکا وہ حقیقی طور پرمستحق تھے۔ جناب محمد اشفاق حسین خان کا شمار بھی ایسے ہی خدمتگاروں میں ہوتا ہے۔جنہوں نے ڈھول تاشے بجائے بغیر قوم وملت کی خدمت کو اپنی زندگی کا شعا ر بنا رکھا ہے۔
معزز قارئین کرام! محمد اشفاق حسین خان نے 23/اکتوبر 1952ء کو 38/1 کاویز گھاٹ شیب پور ہوڑہ میں مقیم ایک متموّل گھرانے میں اپنی آنکھیں کھولیں۔اُن کے خاندان کا شمار علاقے کے با اثر خاندانوں میں ہوتا تھا۔مقامی لوگ اپنے تنازعات اور مسائل کے حل کے لئے اُس خاندان سے رجوع کرتے تھے۔جس کا سلسلہ اشفاق حسین خان صاحب کے والدِ محترم جناب ابوالحسن خان مرحوم تک جاری و ساری رہا۔اُن کی دہلیز کو مقامی پنچایتی عدالت کا رتبہ حاصل تھا۔جہاں علاقے کے سرکردہ اور ذی فہم لوگ سر جوڑ کر پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈ نکالتے تھے۔جناب ابوالحسن خان مرحوم کا تعلیمی، قانونی ، ملی اور سماجی شعور بہت بلند تھا۔وہ شیب پور انجمن یو پی اسکول اور غیر منظور شدہ شیب پور انجمن ہائی اسکول (موجودہ شیب پور انجمن ہا ئی مدرسہ ایچ۔ایس) کے صدرِ اعلٰی کے عہدہءِ جلیلہ پر برسوں فائز رہے۔اُن کا شمار اس اسکول کے بنیاد گذاروں میں ہوتا ہے۔ مغربی بنگال میں کا نگریسی حکومت کے زوال کے بعد اسکول کی ترویج و ترقی کے پیش نظر انہوں نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ استعفا دے کر ایک نئی کمیٹی کی تشکیل کی جس میں با یاں محاذ کے لوگوں کی اکثریت تھی۔اس مثبت فکروعمل کے لئے میں اُن کی پوری ٹیم کی خدمت میں سلامِ عقیدت و محبت پیش کرتا ہوں خدا اُن سارے مرحومین کو غریقِ رحمت کرےآمین۔ ابوالحسن خان مرحوم مسجد بیت المکرم شیب پور ہوڑہ کے قانونی مشیر بھی تھے۔جناب پھول محمد مرحوم سابق سکریٹری مسجدبیت المکرم اُن کی صلاحیتوں اور خوبیوں کے پیشِ نظر اُنہیں اُستاد کہا کرتے تھے۔
معزز قارئین کرام! یہ چند سطورِ محمد اشفاق حسین خان کے خاندانی پش منظر میں رقم کرنے کے بعد میں اپنے موضوع کی سمت لوٹ رہا ہوں۔1971ء میں محترم محمد اشفاق حسین خان اُس زمانے کے تعلیمی قانون کے مطابق ریپن کالجیٹ اسکول( موجودہ ہوڑہ اکھے سیکشا تین) سے ہا ئیر سکندڑی کے امتحان میں کا میاب ہوئے ۔ وہ بنگلہ میڈیم کے طالب علم تھےمگر انہوں نے تیسری زبان کی حیثیت سے فارسی کا انتخاب کیا تھا جو بعد ازاں اُن کے لئے فیض رسانی کا سبب بنی۔اشفاق حسین خان کے مطالعے کا دائرہ صرف بنگالی نصابی کتابوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے اُس عہد کے معروف فارسی داں مولانا حکیم عبدالمنان کاملؔ مرحوم سابق معلم ریپن کالجیٹ اسکول ہوڑہ سے فارسی زبان و ادب اور حضرت مولانا عبدالخلاق ندوی مرحوم سے عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی اور اِن دونوں زبا نوں میں قابلِ رشک اِستعداد حاصل کرلی۔ ہائیرسکنڈری میں کا میابی کے بعد انہوں نے ڈی۔ بی کالج شیب پور کے شعبہءِ کا مرس میں داخلہ لیا مگر مسلسل دو برسوں تک حصولِ تعلیم کے بعد تعلیمی سلسلہ موقوف ہوگیا۔
معزز قارئین کرام! حصولِ تعلیم کے بعد1971ء میں محمد اشفاق حسین خان پیشہءِ درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔غیرمنظور شدہ شیب پور انجمن ہائی اسکول میں تقریباً دو سال تک اعزازی طور پر تدریسی خدمات کی انجام دہی کے بعد 5/ فروری 1973ء میں سرکاری طور پر اُن کی بحالی شیب پور انجمن یوپی اسکول میں عمل آئی ۔درس و تدریس کا یہ مقدس سلسلہ 31/ اکتوبر 2012ء تک بحسن و خوبی جاری و ساری رہا۔اُنہوں نے پیشہءِ معلمی کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے یہی سبب ہے کہ اُن سے کسبِ فیض کرنے والے کئی افراد مغربی بنگال کے سرکاری محکموں، کالجزز اور اسکولوں میں اپنی علمی لیاقت کا لوہا منوانے میں مصروف ہیں۔دورانِ درس وتدرس ہی 1989 ء میں انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اردو مضمون کے ساتھ بی۔اے کی سند بھی حاصل کرلی۔
محترم قارئین کرام! ہوڑہ ڈسٹرک پرائمری کونسل نے انہیں کے۔ آر۔ پی (کیندر ریسورس پرسن ) منتخب کیا تھا۔ مسٹرگوتم شرما اور مجھ خاکسار کو بھی یہ سعادت نصیب ہوئی ۔ہماری ایک ٹیم تھی جو پرائمری اساتذہ کرام کی تربیت پرمعمورتھی۔شری گوتم شرمامحمداشفاق حسین خان کی محنتِ شاقہ سے بیحد متاثر تھے انہوں نے اشفاق خاں صاحب کو Old Young Man کے خطاب سے سرفراز فرما یا تھا ۔اُس عہد کے پرائمری کونسل کے چئیر مین شری سیتیش بندھو پادھیہ بھی اُن کی علمی لیاقت سے حد درجہ متاثرتھے۔وہ اکثر تعلیمی مجلسوں میں فرمایا کرتے” اشفاق حسین خان صاحب اما دیر تھیکے بھالو بنگلہ جا نین “ یعنی اشفاق حسین خان صاحب ہم لوگوں سے زیادہ بہتر بنگلہ جا نتے ہیں۔ اور یہ سچ بھی ہے کیوں کہ مجھے اچھی طرح یاد کہ معروف علمی و ادبی شخصیت خلدآشیانی اُستاذی احسن شفیق مرحوم نے جب تین ادوار کے مشاہیر اردو شعراء کی معروف پانچ پانچ غزلوں کا ترجمہ بنگلہ زبان میں کیا تھا تو انہوں نے محمد اشفاق حسین خان اور جناب فہیم انور کو اپنی رہائش گاہ پر طلب کر کے اُس ضمن میں اُن سے تبادلہءِ خیال کیا ۔اُن کی یہ کتاب اب تک منصہءِ شہود پر جلوہ گر نہیں ہو سکی ہے۔اشفاق صاحب نے شری ستیش بندھوپادھیہ کے ایماء پر PBSPS نامی ماس آرگنائیزیشن کے قوانین و ضوابط اورمقصدِ تحریک کا ترجمہ اردو زبان میں کیا تھا جو ایک کتابچہ کی شکل میں اس تحریک کے کارکنان کے پاس آج بھی موجود ہے۔
ذی قدر قارئین کرام ! محمد اشفاق حسین خان کا مذہبِ اسلام سے عملی طور گہرا لگاؤ ہے۔وہ جمعیت اہلحدیث سے منسلک ہیں۔ شیب پور ہوڑہ میں محمدی لائبریری اور محمدی مکتب کا قیام اُن کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔عصرِ حاضر میں بھی وہ اس جمعیت سے نہ صرف منسلک ہیں بلکہ ہوڑہ ڈسٹرک کمیٹی کے صدر کے عہدے پر فائزہیں ملک کے دیگر ریاستوں میں منعقد ہونے والے جمیعت کے کانفرسوں میں شرکت بھی فرماتے ہیں۔اِ س حوالے سے ایک بات عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ مسلکی منافرت سے کوسوں دور رہتے ہیں یہی سبب ہے کہ اُن کےحلقہءِ احباب نیز چاہنے والوں میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں۔انہیں 2012 ء میں اپنی اہلیہ محترمہ شمیمہ بیگم کے ہمراہ حج کی سعادت نصیب ہوئی نیز 2015ء اور 2018ء میں اُنہوں نے دو بار عمرہ بھی کیا ہے۔محترم اشفاق حسین خان مذہبی ادارہ ”فکروعمل“ شیب پور ہوڑہ کے سکریٹری بھی تھے جو عہدِ حاضر میں غیر فعال ہے۔
محترم قارئین کرام! زبانِ اردو کی ترویج و ترقی کی تحریک کے حوالے سے جہاں تک میری معلومات ہے ابتداء میں جناب اشفاق حسین خان ،پروفیسر حیدر حسن کاظمی کی اردو تحریک سے متاثر ہوکر اُن کی تحریک میں اپنی شمولیت درج کرائی، اس سلسلے میں اُن کی قیادت اور جناب محمد صلاح الدین پپّو مرحوم کے کنوینرشپ میں ایک شاندار جلسہ بھی شیب پور ہوڑہ میں منعقد ہوا تھا اس جلسے سے پروفیسر موصوف نے خطاب کیا۔بعدازاں اردو کی ترویج و ترقی کے وسیع تر مفادات کے پیشِ نظر 1985ء میں اُنہوں نے انجمن ترقی اردو مغربی بنگال کی رکنیت حاصل کرلی۔ انجمن میں اُن کی شمولیت سے شہرِ ہوڑہ میں اردو کی ترقی کی تحریکات کو مزید تقویت ملی۔ 21/جولائی 1985ء کو ہوڑہ ٹاؤن ہال میں منعقدہ اردو پرائمری ٹیچرس کنونشن کی قرارداد کا ترجمہ بنگلہ زبان میں کرکے رسالہ” پریورتن“ کے رپورٹر امرمکھوپا دھیائے کو سونپ دیا جسے بنیاد بنا کر اُنہوں نے ایک بسیط آرٹیکل لکھا جو 26/اپریل 1988ء مذکورہ رسالے میں اشاعت پذیر ہوا جسے پڑھ کراُس وقت کی حکومتِ مغربی بنگال کے وزیرِ تعلیم شری کانتی بسواس حد درجہ متاثر ہوئے اوراُنہوں نے اردو پرائمری ٹیچرس ٹریننگ سنٹر کے قیام کا حکم نامہ جاری کر دیا۔اُس وقت سے تا دمِ تحریر وہ اسی پلاٹ فارم سے چلائے جانے والی ارود کی ترقی کی تحریکات میں اپنے حصہ کا کردار نبھا رہے ہیں۔عصرِ حاضر میں وہ انجمن کی صوبائی کمیٹی کے خزانچی اور ضلع ہوڑہ کے سکریٹری کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
معزز قارئین کرام ! 2006-2005ء میں ٹیچرس فورم ہوڑہ کے زیرِ اہتمام جب این سی پُل دہلی نے غیراردو داں تعلیم یافتہ افراد کو زبانِ اردو سے روشناس کرانے کا بیڑا اُٹھایا توٹیچرفورم ہوڑہ کے ارباب حل وعقد کی نگاہیں محمد اشفاق حسین خان پر مرکوز ہوئیں اور بحیثیت معلم اُن کی اعزازی تقرری عمل میں آئی۔موصوف نے اِ س ذمہ داری کو بھی بڑی تندہی سے انجام دیا۔ محترم اشفاق صاحب تقریباً پچیس برسوں تک مسلم انسی ٹیوٹ کلکتہ کے لائبریری اورلٹریری سب کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔
معزز قارئین کرام! الحاج محمد اشفاق خان ایک قناعت پسند انسان ہیں ۔وہ سدا ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔خدا اُن کی یہ شادمانی تادیر قائم و دائم رکھے آمین ثم آمین ۔
Comments
Post a Comment