ہگلی کی کل اٹھارہ سیٹوں پر ہندی زبان امیدوار صرف ایک ترنمول کےلئے یہ اقدام کہیں مصیبت نہ بن جائے


 

       
ہگلی8/مارچ محمد شبیب عالم ) مغربی بنگال اسمبلی انتخاب 2021 جیسے جیسے قریب آتے جارہا ہے ۔ ایک الگ ہی رنگ پیش کررہا ہے ۔ ووٹروں میں یہ چرچائیں بھی خوب چل رہی ہےکہ پتہ نہیں اس دفعہ کونسی سیاسی جماعت کامیاب ہوگی ۔ کس کی حکومت قائم ہوگی ؟ جیسے سوالات ابھر کر سامنے آرہے ہیں ۔  ادھر انتخابی بگل بجنے سے دو ماہ قبل سے ہی ضلع ترنمول خیمے میں یہ قیاس آرائی ہورہی تھی کہ اس دفعہ کچھ ہندی زبان والے  اکثریتی حلقہ میں ترنمول کے جانب سے ہندی بھاسی امیدواروں کو ٹکٹ مل سکتا ہے ۔ اسکی اصل وجہ یہ بھی تھی کہ ترنمول کے سامنے سب سے بڑی حریف جماعت بی جے پی ہی ہےاور بی جے پی ہندی زبان کے ووٹروں کے دماغ میں بیٹھی ہوئی ہے ۔ اس سے حکمراں جماعت کو بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے ۔ اس سے بچنے اور ہندی زبان کے ووٹروں کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے ترنمول پارٹی میں ہندی زبان کے جو بڑے رہنماء ہیں انہیں اس انتخاب میں ٹکٹ مل سکتی ہے ۔    مگر یہاں تو نتجہ بلکل اس کے برعکس رہا گزشتہ جمعہ کو ترنمول سپریمو ممتا بنرجی جیسے ہی امیدواروں کا اعلان کی ۔ ٹھیک اسکے ایک گھنٹے بعد سے ہی ترنمول خیمے میں ہلچل سی مچ گئی تھی ۔ حالانکہ یہ ہلچل چار دیواری کے اندر ہی رہی ۔ کھل کر کوئی بھی سامنے نہیں آیا ۔ مگر عوام کے درمیان یہ باتیں گشت کرنے لگی اور ترنمول کارکنان و حامیوں کے اندر سے بھی اس طرح کے سوال پنپنے لگےکہ کیا سوچا تھا اور کیا ہوا ۔   اس ضلع کی کل 18 اسمبلی نشستوں میں سے صرف ایک سیٹ ہندی بھاسی رہنماء کو دیا گیا ہے ۔  کچھ لوگ تو اس ایک کو بھی نیم ہندی امیدوار ہی بتا رہے ہیں ۔ یہ امیدوار کوئی دوسرا نہیں بلکہ ہگلی ضلع ترنمول کانگریس کے صدر دلیپ یادو ہیں جنہیں آرم باغ محکمہ کے تحت پرسوڑا اسمبلی سے ٹکٹ دی گئی ہے ۔  کہا جاتا ہےکہ ہگلی ضلع کا کچھ اسمبلی حلقہ ہندی اکثریت کا ہے جہاں سے ہمیشہ ہی ہندی بھاسی ووٹ ہی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں ۔  یہاں 30 فیصد کے قریب ہندی ووٹر ہیں ۔ جیسے اترپاڑہ ، چاپدانی ، شیرامپور ، چندن نگر اور آدی سپتو گرام یہ ایسی نشستیں ہیں جہاں ہندی بھاسی ووٹروں کا ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے ۔  لیکن اس دفعہ لوگوں نے جو سوچا تھا ویسا بلکل نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ بنگال میں سیاسی اور موسمی پارہ چڑھنے کے باوجود بھی ترنمول کے کچھ خیمے میں سردی اب بھی برقرار ہے ۔   شیرامپور ، رشڑا ، چاپدانی کے  حلقہ میں ہندی زبان کے امیدوار کو ٹکٹ نہیں ملنے سے ترنمول کارکنان مجھے جوش و جزبہ تھوڑا کم نظر آرہا ہے ۔  کئی رہنماؤں نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اصل میں ہم ترنمول کانگریس کے سپاہی نہیں غلام ہیں ۔ ہمیں جو بھی حکم کیوں جائے گا اسے ہمیں ماننا ہوگا ۔ اس لئے کہ پہلے پارٹی ہےاس کے بعد ہی ہم ہیں اور پارٹی کے فیصلے کو نہیں مانیں تو غدار کہلائیں گے ۔   وہیں اسی ضلع کے کچھ اکثریتی طبقے کے بھی رہنماء ہیں جو گزشتہ دس برسوں سے ایم ایل اے تھے ۔ مگر اس بار انہیں ٹکٹ نہیں ملی تو انکی ناراضگی بھی سامنے سے ظاہر ہونے لگی اور ان کے دل کو اتنا چوٹ پہونچا کہ وہ اس درد کو برداشت نہ کرسکے اور دوسری جماعت میں شامل ہوگئے  ۔ جی ہم بات کررہے ہیں ۔ سنگور کے سابق ایم ایل اے " ماسٹر موشائے "  روندر ناتھ بھٹاچاریہ کی وہ آج ترنمول کو چھوڑ کر بی جے پی کا پرچم ہگلی لوک سبھا کی ایم پی لاکٹ چٹرجی کے رہنمائی میں تھام لیں ۔ ویسے روندر ناتھ بھٹا چاریہ نہایت ہی سلجھے ہوئے شخصیت کا نام ہے وہ نہایت ہی خوش اخلاق طبیعت کے انسان بھی ہیں ۔ انکے خلاف کسی بھی طرح کے لوٹ کھسوٹ میں انکا نام یا زکریا کبھی نہیں ہوا ۔ مگر انکے ہی جماعت کے لوگ انکے خلاف لگاتار لگے رہے اور آخر میں انکا اج صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور پارٹی کو الوداع کہہ گئے ۔  وہیں دوسری جانب بالاگڑھ اسمبلی سیٹ سے اسیم ماجھی کو اس دفعہ ٹکٹ نہیں ملی ۔ مگر وہ دلیری دیکھاتے ہوئے پارٹی و انتخابی تشہیری مہم میں جم کر حصہ لے رہے ہیں ۔     لیکن ذہن میں ایک سوال رہ ہی جاتا ہےکہ یہ ہندی زبان کے امیدوار کھڑا نہیں کرنے کا خمیازہ کیا ترنمول کے لئے نقصاندہ بن سکتا ہے ؟  اسکا جواب تو آئندہ 2مئی کو ہی مل سکتا ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

اپنا حق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کریں جس سے عوام کا عوام سے سامنا ہونے کا اندیشہ ہو : مولانا حلیم اللہ قاسمیجمعیۃ علماء مہاراشٹر کا یکروزہ تربیتی اجلاس بحسن و خوبی اختتام پذیر

अग्रणी चिकित्सा शिक्षा और व्यापक देखभाल HOPECON'25 कोलकाता में तैयार

کلکتہ کے مٹیا برج گارڈن ریچ( میٹھا تلاب) میں 26 جنوری ریپلک ڈے کے موقع پر جےء ہند ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے  کینسر آورنیس ایجوکیشنل کانفرنس پروگرام منعقد کیا گیا