فرفرا شریف کے پیرزادہ و انڈین سیکولر فرنٹ کے رہنماء عباس صدیقی کی سیاست میں حیثیت کیا ہے ۔ بنگال کی سیاست میں ہلچل مچائیں گے یا گم ہوجائیں گے ؟


 

ہگلی9/مارچ( محمد شبیب عالم ) سیاست میں 34 سال کی عمر زیادہ نہیں ہوتی ہے ۔  لیکن جب 28 فروری کو کولکاتا  کے بریگیڈ گراؤنڈ میں منعقدہ ایک ریلی میں 34 سالہ مسلم عالم  اسٹیج پر آیا تو اس نے سب سے زیادہ سرخیاں بنائیں تقریب میں شامل  خاصے لوگوں کو  متاثر کیا     ۔   یہ ریلی ہندوستان کی گرانڈ اولڈ پارٹی کانگریس اور سی پی ایم کی تھی ۔ جو اس وقت    جلاوطنی کے  شکار ہے لیکن عباس صدیقی نے اس جلسہ  خود کو ثابت کردیا ۔ 
 
     

 ویسے   عباس صدیقی کی سیکولر اسناد پر  کانگریس کے رہنما آنند شرما نے سوالات اٹھائے تھے  ۔     لیکن اب وہ کانگریس سی پی ایم کے ساتھ ہیں ۔  یہاں یہ جاننا مناسب ہے کہ پیرزادہ عباس صدیقی انتخابی سیاست کے ماہر ہیں ۔ پیرزادہ ایک فارسی زبان کا لفظ ہے ۔  جس کا مطلب ہے ایک مسلمان مذہبی رہنما کا بچہ ۔  عباس صدیقی کا خاندان فرفرا شریف میں حضرت ابو بکر صدیقی اور ان کے پانچ بیٹوں کی قبر کی دیکھ بھال کر رہا ہے ۔  

 فرفرا شریف مغربی بنگال کے ضلع ہگلی کے جنگی پاڑہ  بلاک میں واقع   ہے ۔   حضرت ابو بکر صدیقی  کی درگاہ بنگالی مسلمانوں میں بہت مشہور ہے ۔  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اجمیر شریف کے بعد یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی دوسری مقدس درگاہ ہے ۔  یہاں حضرت ابو بکر صدیقی  کے ساتھ انکے پانچ بیٹوں کا  مقبرہ بھی موجود ہے ۔  یہاں کا سالانہ عرس بنگالی اور اردو بولنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو راغب کرتا ہے ۔ عرس کے  موقعے پر صرف  ہگلی یا مغربی بنگال ہی  نہیں بلکہ بنگلہ دیش سے  کافی تعداد میں انکے چاہنے والے عقیدت مند ہزاروں کی  تعداد تشریف  لاتے ہیں        ۔  پیرزادہ عباس صدیقی اب تک ایک مذہبی شخصیت تھے ۔ ایسا نہیں تھا کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ ایک وقت میں وہ سی ایم ممتا بنرجی کے ساتھ بہت قریبی اور انکے  اچھے تعلقات  تھے ۔  کہا جاتا ہے کہ جب ممتا کی جدوجہد کے دن تھے اور وہ سنگور اور نندیگرام میں احتجاج کررہی تھیں تو  فرفرا شریف کے پیرزادہ کنبے نے ممتا کی کھلم کھلا حمایت کی ۔  

 جب تک عباس صدیقی مولانا کے کردار میں تھے ۔ ممتا اور عباس  اس وقت تک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ۔  لیکن جیسے ہی اس میں سیاسی عزائم پیدا ہوا ۔ اس کا راستہ ممتا سے الگ ہوگیا ۔ بنگال کے مسلمانوں میں نوجوان عباس صدیقی کا اپنا مداحوں کا اڈہ ہے ۔  اپنی اشتعال انگیز تقاریر  مذہبی دلائل کی وجہ سے  وہ سوشل میڈیا کے ورچوئل اسپیس سے حقیقت کے پانی کی طرف بہت زیادہ ہجوم کھینچتا ہے ۔  ان کی بہت ساری ویڈیوز اب بھی فیس بک ، ٹویٹر پر جاری ہیں  ۔  بنگال کی 294 نشستوں میں سے  مسلم آبادی کا تناسب تقریبا70  سے 100 نشستوں میں تقریبا 27 سے 30 فیصد ہے۔  مرشدآباد ، مالدا ، شمالی دیناج پور میں ، مسلمان آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے ۔  یہاں ہرسال    لاکھوں عقیدت مند کی زیارت کرنے آتے ہیں ۔ 
  

 عباس صدیقی کے جنوبی بنگال میں جنوبی 24 پرگنہ ، نارتھ 24 پرگنہ ، ہگلی ، ہوڑہ ، بردوان اور بیر بھوم میں لاکھوں حامی ہیں ۔  عباس صدیقی نے کبھی بھی اپنے حامیوں کی سیاسی وفاداری کی کوشش نہیں کی  کیونکہ وہ پہلی بار براہ راست سیاست میں جا رہے ہیں ۔  انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ ان مسلمانوں کو سیاسی قیادت منتخب کرنے کا اختیار دیتے ہیں تو وہ بنگال کی سیاست میں طاقت کا مرکز بن سکتے ہیں ۔  تاہم  ان مسلمانوں نے 2011 اور 2016 کے انتخابات میں ممتا کے حق میں ووٹ دیا تھا اور انہیں بھاری نشستیں دی تھیں ۔ ممتا کے خلاف غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے عباس صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ مسلم ووٹ بینک کو پابند سمجھتے ہیں ۔  پیرزادہ صدیقی کا دعویٰ ہے کہ اب بنگال کے مسلمان ووٹر نے ممتا کی محبت کی دلچسپی چھوڑ دی ہے اور اب آزاد ہے ۔

  جس کا نام انہوں نے سیکولر جماعت   انڈین سیکولر فرنٹ پہنتے ہوئے رکھا ہے ۔  تاہم  ان کا سیکولرازم کا دعویٰ اتنا ہی منطقی ہے جتنا بھارت میں دوسری جماعتوں کے دعوے  کانگریس قائدین نے خود اس حقیقت کی تصدیق کی ہے ۔  اس اتحاد میں بہت ساری دلت اور قبائلی تنظیمیں بھی شامل ہیں ۔ اعدادوشمار کے مطابق ، مرشد آباد میں 22 ، مالدہ میں 12 ، شمالی دیناج پور میں 9 ، بیربھوم میں 11 نشستیں ہیں جن میں 50 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے ۔

 جہاں فرورہ شریف موجود ہے ۔ وہیں ضلع ہوگلی میں اسمبلی کی 18 سیٹیں ہیں ۔  نارتھ 24 پرگناس میں 33 نشستیں ہیں اور جنوبی 24 پردوں میں 31 نشستیں ہیں ۔  یہ وہ علاقے ہیں جہاں ہندوستانی سیکولر فرنٹ اپنے امیدوار کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔

 تاہم  یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ بنگال میں ابھی تک اخلاقیات کی مضبوط سیاست نہیں ہے ۔  ممتا حکومت میں بہت سارے مسلم ممبران پارلیمنٹ ، وزراء اور ایم ایل اے ہیں ۔ ان کی مسلم ووٹوں پر اپنی گرفت ہے ۔  اس کے علاوہ اتر دنج پور ، مالدہ اور مرشد آباد میں کانگریس کی گرفت ہے ۔ اس کے علاوہ بنگال میں مسلم سیاست کسی ایک دھارے میں نہیں چلتی ۔  ان کی بہت سی شاخیں ہیں ، ان کی زبان ، ثقافت ، مذہب بھی انہیں قبول کرنے کا مختلف طریقہ ہے ۔  ریاست میں مسلم آبادی کا 8 سے 10 فیصد اردو ہے  وہ کولکتہ ، آسنسول ، ہگلی چاپدانی اور  سلی گوڑی جیسے شہروں میں آباد ہیں ۔  باقی 90 فیصد مسلمان ریاست کے دیگر حصوں میں ہیں اور بنگلہ کے علاوہ دیگر بولیاں بولتے ہیں ۔  کہا جاتا ہے کہ اردو بولنے والے مسلمانوں کا جھکاؤ ترنمول  کانگریس کی طرف ہے ۔

 لہذا  اس وقت پیرزادہ عباس صدیقی کے دعوے کو چہرہ قدر کے ساتھ ماننا جلد بازی اور بے وقوفی ہوسکتا ہے  ۔ پیرزادہ عباس صدیقی کے سیاسی عزائم عروج پر ہیں ۔  لیکن ان کے چچا طہی صدیقی ابھی بھی ممتا بنرجی کے لیفٹیننٹ ہیں ۔  طہی صدیقی نے آج تک کو بتایا کہ عباس ابھی بچہ ہے ۔  ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے مسلمان فرقہ واریت کے خلاف ووٹ دیں گے ۔      فرفرا شریف کے حامی بھی دو حصوں میں تقسیم ہیں ۔

Comments

Popular posts from this blog

اپنا حق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کریں جس سے عوام کا عوام سے سامنا ہونے کا اندیشہ ہو : مولانا حلیم اللہ قاسمیجمعیۃ علماء مہاراشٹر کا یکروزہ تربیتی اجلاس بحسن و خوبی اختتام پذیر

अग्रणी चिकित्सा शिक्षा और व्यापक देखभाल HOPECON'25 कोलकाता में तैयार

کلکتہ کے مٹیا برج گارڈن ریچ( میٹھا تلاب) میں 26 جنوری ریپلک ڈے کے موقع پر جےء ہند ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے  کینسر آورنیس ایجوکیشنل کانفرنس پروگرام منعقد کیا گیا