"کامیابی کا سہرا کس کے سر؟ "


( ڈبلیو، بی، سی، ایس  حوالے سے )                                         

برائے قارئین :

مغربی بنگال کے WBCS (ویسٹ بنگال سول سروس) امتحان میں آئندہ برسوں کے لئے  ہندی اردو،اور سنتھالی زبانوں کو خارج کر دینے کا ایک حکم نامہ مورخہ 24 جون 2024ء کو محترمہ ممتا بنرجی کی حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا۔ اس فیصلے کے تحت ان تین زبانوں کو امتحانی پرچوں سے خارج کر کے 300 نمبروں کا بنگلہ پرچہ حل کرنا لازمی قرار دیا گیا۔
یہ حکم نامہ منظرِ عام پر آتے ہی زلزلے کے مانند اس کےاثرات مرتب ہونے لگے۔ نئی نسل کے مقابلہ ذاتی امتحان کے امیدواروں، ان کے سرپرستوں، اور ملی و سماجی حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ۔ ترقی کی راہوں میں رکاوٹیں اور تنزلی کے خدشات نے فضا کو بےچین کر دیا۔
سرکاری اور غیر سرکاری ادارے، سیاسی و سماجی قائدین، اور عوامی نمائندے ملت کی فلاح و بہبود کے لئے بیدار ہونے لگیں۔ ایک عرصے کی خاموشی کے بعد بیداری کی آہٹیں محسوس کی جانے لگی ۔ یہ آہٹیں دھیرے دھیرے آوازوں میں ڈھلنے لگیں، اور کئی اداروں نے اس نا انصافی کے خلاف لب کشائی کی جرأت کی۔

 مزاحمت کی ابتداء :

سب سے پہلے آل انڈیا ملی کونسل کے ذمہ داران حافظ شمس العارفین، مولانا شفیق، قاری فضل الرحمن اور حاجی شہود عالم صاحبان نے ہردلعزیز وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے ملاقات کر کے صورتِ حال کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ اُسی ملاقات کے بعد ایک خوشخبری موصول ہوئی کہ مذکورہ فیصلہ واپس لے لیا گیا اور ماضی کی روایت برقرار رہے گی۔

ایک اور غمناک خبر  :

تاہم، اچانک ایک بار پھر 25 اپریل 2025ء کو ایک اور نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ جس میں دوبارہ  ہندی، اردو، اور سنتھالی زبانوں کو خارج کر کے 300 نمبروں کا بنگلہ پرچہ لازمی قرار دیا گیا۔ اس نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔
اس اعلان کے فوراً بعد جناب فرہاد حکیم (میئر، کلکتہ میونسپل کارپوریشن) نے ممتا بنرجی سے رجوع کیا اور حالات سے روشناس کیا اور عوام کو پیغام دیا کہ یہ نوٹیفکیشن بہت جلد واپس لیا جائے گا۔ مگر چند ہی ہفتوں کے بعدناانصافی کے سیاہ بادل چھٹنے کے بجائے مزید گہرے ہوتے چلے گئے اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ 

سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی کاوشیں  :

مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے کارکنان  جناب ندیم الحق ( وائس چیئرمین )،جناب شہاب الدین حیدر، محترمہ نزہت زینب صاحبہ، اور جناب مختار احمد  مع دیگر رکن کی پیشانیوں پر پریشانی کی لکیریں صاف دکھائی دینے لگیں۔ میں نے یہ منظر خود اُس وقت دیکھا جب اردو میڈیم طلبہ کے لئے بنگلہ زبان کی تدریس کے بندوبست کے حوالے سے ایک درخواست لے کر اردو اکیڈمی دفتر گیا تھا۔ اراکین کی سنجیدگی، خاموشی اور اضطراب کو میں نے محسوس کیا۔ 
اسی طرح، انجمن ترقی اردو (ہند) مغربی بنگال کے فعال عہدیداران جناب اظہار عالم، ڈاکٹر واصف اختر، اور جناب قمرالدین مللک و دیگر کارکنان بھی مسلسل متحرک رہے۔ جلسوں اور تقریبات میں جب وہ تنظیمی کارکردگیوں کا ذکر کرنے کھڑے ہوتے تو اس نوٹیفکیشن کے حوالے سے اُن پرسوالات کی بوچھار  ہونے لگتیں۔۔ اس کے باوجود وہ اپنی ذمہ داریوں سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ پیہم کوششیں کرتے رہے کہ وزیر اعلیٰ اس نوٹیفکیشن پر نظرِ ثانی فرمائیں تاکہ اردو داں طبقے کو مزید پسماندگی سے بچایا جا سکے۔

عوامی سطح پر تحریک کی شکل :

اسی دوران، ایک عوامی تنظیم "ہندی، اردو اور سنتھالی کوآرڈینیشن کمیٹی" کے قیام کا اعلان ہوا۔ اس کمیٹی کی قیادت جناب نوشاد مومن، ماسٹر عبدالواحد، پروفیسر سوکمار مرمر، اور شری راجیب کمار  کر رہے تھے۔ مختلف اضلاع کلکتہ، ہوڑہ، ہگلی، اور آسنسول کے سرگرم ادبی، سماجی، سیاسی رہنماؤں اورخاص و عام نے گلیوں، محلّوں، سڑکوں، اور نکڑوں پر جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے شدت کے ساتھ آواز یں بلند کیں۔ اسٹریٹ کارنر میٹنگوں، دستخطی مہم، اور عوامی جلسوں کے ذریعے حکومت کو یہ باور کروایا گیا کہ اس نوٹیفکیشن کے اثرات آنے والی نسلوں پر مرتب ہوں گے۔ میں نے خود ان سرگرمیوں کو قریب سے دیکھا، ان کی سنجیدگی، خلوص، اورپرجوش لہجوں کو سنا، یہاں تک کہ ان کے عز ائم اس قدر بلند ہوگئے کہ اُنہوں اعلان کر دیا کہ اگر ضرورت پیش آئی تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی وہ گریز نہیں کریں گے ۔

ایک پُر جوش اور مخلص قائد ماسٹر مبارک علی مبارکی کے عزائم   :

آخر میں، اگر ایک ایسے نام کا ذکر نہ کیا جائے جو اپنی ذات میں ایک انجمن ہے، تو یہ مضمون ادھورا رہے گا، اور وہ نام ہے ماسٹر مبارک علی مبارکی صاحب کا ۔ 
یہ وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے اس معاملہ کو لیکر سب سے پہلے تنِ تنہا، تحریری سفارشات، خطوط، اور مختلف ادبی و سیاسی محافل میں آوازیں بلند کیں۔ ہر اسٹیج پر اپنی حق گوئی کا مظاہرہ کرتے رہے ۔ حلانکہ یہ مجاہد موجودہ اقتدار سے انسیت رکھتے ہیں، باوجود اس کے پہلی مہمیز آواز بنکر رونما ہوئے میں خود ان کی سرگرمیوں کا چشم دید گواہ ہوں۔

نتیجہ اور ذاتی احساس  :

میں سیاست داں تو نہیں ہوں، مگر برسوں سے سیاست کو قریب سے دیکھتا آیا ہوں ۔ پولیٹیکل سائنس کے مطالعہ سے یہ جانکاری نصیب ہوئی ہے کہ بعض فیصلے وقتی ہوتے ہیں، بعض پر نظرِ ثانی بھی ناگزیر بن جاتی ہے اور بعض فیصلے واپس لے لئے جاتے ہیں اور یہی اقتدار کی بصیرت اورجمہوریت کی خوبصورتی ہے۔

لہٰذا یہ کہنا کہ حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ، یا موقع پرستی سے کام لیا یا بد کلامی و تلخی پوسٹ میرے نزدیک غیر اخلاقی اور بے جا ہے۔اس نوع کی تنقید وں سے بات بگڑ تی ہے اُ ن کی سیاست و لائحہ عمل ان کے ساتھ، اور ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔

ایک بات کا افسوس ضرور رہا کہ اس سارے معاملے میں بعض مخالف جماعتیں یا تو غائب یا تماشائی بنی رہیں ۔ اُن کی جانب سے نا پوسٹر و بینر نظر آئے ۔ گویا اردو والے اگر محروم ہوتے تو وہ صرف افسوس کا اظہار کرنے آتیں اور موقع محل سے اقلیتون کی بستیوں میں اردو کا رونا روتیں اور اکثریت علاقے میں اردو کے حوالے سے اُن کا لہجہ کچھ اور ہی ہوتا مگر ہمیں یہ اعتراف ضرور کرنا چاہئے کہ کئی سیاسی جماعتوں کے کارکنان یا رہنماؤں نے جو زبان، تہذیب، اور قومی شناخت سے محبت رکھتے تھے بلاخوف و خطر میدانِ عمل میں اپنی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھا ۔ 
اورہاں! سوشل میڈیا کے ذریعے جو مشاہدات ہو رہے ہیں، یہاں ان باتوں کو بھی غور کر تے چلیں  فی الحال ہم نے آخری بازی نہیں مار لی ہے موجودہ حکومت نے ہمارے بہت سے  حقوق ہمیں بن مانگے دیئے ہیں اور بہت سے ہمارے مطالبات کے فائلوں پہ اب تک دھول  دبھے لگے ہوئے ہیں اس لئے ہمیں اترانے کی ضرورت نہیں ، پل بھر کی خوشی ٹیھک ہے، کیونکہ اس جمہوریت پسند اقتدار سے ابھی بہت کچھ حاصل کرنا باقی ہے جیسے کہ
 * مکمل اور حقیقی و عملی طور پر اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینا ۔ 
  * غیر بنگالی اسکولوں میں تعلیم کے لئے بنگلہ کو تسری زبان کا درجہ دینا ۔ 
 * آئندہ دس سالوں کے لئے کسی بھی مقابلہ ذاتی امتحانات میں غیر بنگلہ زبان والوں کے لئے بنگلہ پرچہ لازمی نہیں ہو اس پر نظر رکھنا۔ 
 * مغربی بنگال میں مزید تعلیمی نظام اور نصابی کتب کو بہتر بنانے کے لئے دیگر سہولیات کی فراہمی کرنا ۔ 

اس لئے اسی طرح اتحاد و اتفاق کے ساتھ محبانِ اردو بنکر بیدار رہیں اور حکومت کو جمہوری طریقے سے صلاح و مشورے دیتے رہیں ، توقع ہے کہ اسی حکومت سے ہی ہمارے حقوق کی دستیابی ہوگی۔ 

اخـتـتامـیہ  :
المختصر، میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دیدی ممتا بنرجی صاحبہ اور تمام قائدین و شرکائے مہم کو شکریہ و مبارک باد اور محبت بھرا سلام پیش کرتا ہوں، اور آپ تمام لوگوں کی ترقی، خوشحالی، اور سلامتی کے لئے اپنے رب کے حضور دعا گو ہوں۔

تاثرات : ریـاسـت حسـین
          ( شیب پور، ہوڑہ)

Comments

Popular posts from this blog

اپنا حق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کریں جس سے عوام کا عوام سے سامنا ہونے کا اندیشہ ہو : مولانا حلیم اللہ قاسمیجمعیۃ علماء مہاراشٹر کا یکروزہ تربیتی اجلاس بحسن و خوبی اختتام پذیر

अग्रणी चिकित्सा शिक्षा और व्यापक देखभाल HOPECON'25 कोलकाता में तैयार

کلکتہ کے مٹیا برج گارڈن ریچ( میٹھا تلاب) میں 26 جنوری ریپلک ڈے کے موقع پر جےء ہند ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے  کینسر آورنیس ایجوکیشنل کانفرنس پروگرام منعقد کیا گیا